جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے حاملہ کی عدّت‘ وضعِ حمل کو قرار دیا ہے، اس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: حاملہ کی عدت کتنی ہے؟
قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس بات کی تخصیص نہیں کی گئی کہ حمل کتنے عرصے کا ہو تو اسے عدت شمار کیا جائے، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اسی نوے دن سے کم والی کو حاملہ شمار نہ کیا جائے۔ جس شخص نے بھی ایسا دعویٰ کیا ہے اسے اس سلسلے میں دلیل پیش کرنی چاہیے۔
طلاق رجعی کے بعد وضعِ حمل سے عدت ختم ہوگئی تھی جس کے بعد دی گئی طلاقیں واقع نہیں ہوئیں، کیونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح بھی ختم ہو گیا اور بیوی محلِ طلاق نہیں رہی۔ اس لیے نکاح ختم ہونے کے بعد دی گئی طلاقیں فضول ہیں۔ زوجین تجدید نکاح کر کے دوبارہ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا اسقاطِ حمل سے حاملہ مطلقہ کی عدت مکمل ہو جاتی ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔