عشرہ محرم الحرام میں‌ شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5061
10 محرم الحرام کو شادی کرنا کیسا ہے؟ برائے مہربانی راہنمائی کر دیں۔

  • سائل: بلال احمدمقام: ایبٹ آ باد
  • تاریخ اشاعت: 20 ستمبر 2018ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

شریعتِ اسلامی میں عشرہ محرم الحرام سمیت سال کے کسی بھی دن شادی کرنے کی ممانعت نہیں ہے، مگر بسا اوقات حالات و واقعات اور سماجی و معاشرتی عوامل شادیوں کی تقریبات میں مانع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری مشرقی ثقافت میں عزیز و اقارب اور ہمسائیوں وغیرہ کی غمی و خوشی میں شمولیت کو سماجی قدر سمجھا جاتا ہے۔ اگر محلے میں کسی ہمسائے کے ہاں یا دوسرے شہر میں موجود کسی عزیز کے ہاں کوئی المناک حادثہ پیش آ جائے تو ہم اپنے گھر میں ہونے والی خوشی کی تقریب منسوخ کر دیتے ہیں یا نہایت سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اپنے گھر کے اندر خوشی منانے سے ہمیں شریعت نے روکا ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ ہمسائے یا عزیز سے قلبی تعلق کے اظہار اور اس کے غم میں شامل ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی سماجی بندھن کی بنیاد پر ہمسائے یا عزیز کے ایامِ غم میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے، سیدہ خاتونِ جنت علیہا السلام کے لختِ جگر اور حیدرِ کرار علیہ السلام کے جگرگوشہ سید الشہداء امام الشہداء امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خانوادے کی دردناک شہادت کے ایام میں خوشیوں اور شادیانوں کا اہتمام کیونکر کیا جاسکتا ہے؟

امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اسلام کا دامن شہادت کے پھولوں سے لبریز ہے مگر کلمہ گو ظالم شیطانوں کے ہاتھوں جس ظالمانہ انداز میں گلشنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول مَسلے گئے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ اس قدر دردناک شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی بلکہ چشمانِ مقدس سے آنسو بہا کر غمِ حسین علیہ السلام میں رونا اپنی سنت بنا دیا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ:

ان امتک ستقتل هذا بارض يقال لها کربلاء.

آپ کی امت کہلانے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔

(المعجم الکبير، 3: 109، ح : 2819)

61 ہجری کو یومِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان اور رفقاء کی قربانی دے چکے تو آقا علیہ السلام کی اضطراب کا کیا عالم تھا اس کا اندازہ حضرت سلمی رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے کیا جاسکتا ہے:

دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت: ما يبکيک؟ قالت: رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت: مالک يا رسول اﷲ قال: شهدت قتل الحسين انفا.

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آپ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت گاہ میں حاضر ہوا ہوں کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔،،

(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)

امت کی اکثریت نے حضرت حسین سلام اللہ و رضونہ علیہ اور آپ کے رفقاء کی شہادت کو ایک عظیم سانحہ کے طور پر دیکھا اور یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو یوم الحزن کے طور پر یاد کیا۔ اس لیے امتِ مسلمہ کے ہاں عشرہ محرم الحرام میں شادیوں یا خوشیوں کی دیگر تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ البتہ مجبوری کی صورت میں‌ سادگی کے ساتھ نکاح کرنے میں حرج نہیں۔

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر خانوادہ رسالت کے شہدائے پر ہونے والے مظالم پر خوشیاں مناتا ہے اور اسی لیے عشرہ محرم میں خوشیوں کی تقریبات کا انعقاد کرتا ہے تو وہ یقیناً روحِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دینے کا مرتکب ہے اور اسے بروزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امت میں ایسے بدبخت گروہ بھی گزر چکے ہیں جو شہادتِ امامِ عالی مقام کی مناسبت سے عاشورہ کے روز باقاعدہ خوشیوں اور عید کا اہتمام کرتے۔ امام ابن کثیر رقمطراز ہیں:

’شام کے ناصبین نے (سانحہ کربلا کے بعد) یوم عاشورہ کو اس اس طرح منانا شروع کیا کہ یہ لوگ یوم عاشورہ کو کھانے پکاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور قیمتی لباس پہنتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے۔ اس میں وہ طرح طرح کے کھانے پکاتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کی تاویل یہ کی کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور جس شخص کی بیعت پر لوگوں نے اتفاق کیا تھا، اسے معزول کرنے آئے تھے (معاذاللہ)۔

ابنِ کثیر خلاصہ کلام ان الفاظ میں کرتے ہیں:

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ آپ کی شہادت پر غمگین ہو۔ بلاشبہ آپ سادات مسلمین اور علماء صحابہ میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بیٹی کے صاحبزادے ہیں جو آپ کی بیٹیوں میں سب سے افضل تھیں۔ آپ عبادت گزار ، دلیر اور سخی تھے۔

ابن کثیر، البدایه و النهایه، 11: 577

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی