کیا اسقاطِ حمل سے حاملہ مطلقہ کی عدت مکمل ہو جاتی ہے؟


سوال نمبر:4424
السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ متین بیچ اس مسئلہ کے کہ زید نے بیوی کو ایک طلاق رجعی دی تب وہ دو مہینے کی حاملہ تھی، طلاق کے تین دن بعد سقوطِ حمل ہوگیا۔ کیا عدت کی مدت سقوطِ حمل کے ساتھ ختم ہو گئی؟ یا عدت تین حیض ہی ہوگی؟ اب وہ رجوع کر سکتے ہیں یا تجدید نکاع کرنا پڑے گا؟ کچھ لوگوں‌ کا خیال ہے کہ اگر حمل چار مہینے کا ہوتا سقوطِ حمل کے ساتھ عدت مکمل ہو جاتی، کیوں کہ حمل دو مہینے کا تھا اس لیے عدت تین حیض ہوگی۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

  • سائل: محمد ندیممقام: ملتان
  • تاریخ اشاعت: 28 ستمبر 2017ء

زمرہ: مطلقہ کی عدت

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًاO

اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔

الطَّلاَق، 65: 4

اور احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ السِّقْطِ، فَقَالَ: تَنْقَضِي بِهِ الْعِدَّةُ.

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اگر نامکمل بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت مکمل ہو جائے گی؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں عدت مکمل ہو جائے گی۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 197، رقم: 19274، الرياض: مكتبة الرشد

ايك روايت میں ہے:

عَنْ أَشْعَثَ، قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: إِذَا أَلْقَتْهُ عَلَقَةً أَوْ مُضْغَةً بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّهُ حَمْلٌ، فَفِيهِ الْغُرَّةُ، وَتَنْقَضِي بِهِ الْعِدَّةُ، وَإِنْ كَانَتْ أُمَّ وَلَدٍ أُعْتِقَتْ.

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عورت نے بچے کو جما ہوا خون یا لوتھڑا ہونے کی حالت میں جنم دیا بعد اس کے کہ حمل ہونا معلوم ہو چکا تھا تو اس میں غُرَّہ (صحت مند غلام یا لونڈی بطور دیت) ہے۔ اور اس سے عدت پوری ہو جائے گی اور اگر ام ولد ہو تو آزاد ہو جائے گی۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 198، رقم: 19279

لہٰذا درج بالا آیت مبارکہ اور روایات کے مطابق مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے‘ اس معاملے میں کسی امام کا کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے حاملہ مطلقہ کی عدت بحکمِ قرآن بالاتفاق وضع حمل (حمل سے خالی ہونا) ہے۔ وضع حمل چاہے بچے کی پیدائش کی صورت میں ہو، اسقاطِ حمل کی صورت میں ہو یا حمل ضائع ہونے کی صورت میں‘ اس سے عدت مکمل ہو جائے گی۔ اگر زید نے طلاقِ رجعی دی ہے تو عدت مکمل ہونے کے بعد وہ دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں زید کے پاس طلاق کے صرف دو حق باقی رہ جائیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری