کیا رسول اللہ (ص) نبوت و ابوت میں سب سے اولین ہیں؟


سوال نمبر:4597

السلام علیکم مفتی صاحب! کچھ صوفیا جن میں احمد رضا خان بریلوی بھی شامل ہیں‘ ان کا عقیدہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں کے باپ ہیں، تمام انسانوں کی ارواح آپ کے نور سے پیدا کی گئی ہیں یہاں تک کہ آپ حضرت آدم علیہ سلام کے بھی والد ہیں۔ احمد رضا خان بریلوی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں شعر کہتے ہیں کہ:

ان کی نبوّت، ان کی ابوّت ہے سب کو عام
اُمّ البشر عروس انہی کے پسر کی ہے

( حدائق بخشش حصہ اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 75)

اس کے حاشیے میں لکھا ہوا ہے کہ ”علماء فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کے پدرِ معنوی ہیں کہ سب کچھ انہیں کے نور سے پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے حضور کا نام پاک ابوالارواح ہے۔ آدم علیہ السلام اگرچہ صورت میں حضور کے باپ ہیں، مگر حقیقت میں وہ بھی حضور کے بیٹے ہیں۔ تو اُمّ البشر یعنی سیدنا حوا‘ حضور ہی کے پسر آدم علیہ السلام کی دلہن ہیں۔“

(حاشیہ نمبر 2 حدائق بخشش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 75)

عبارت مذکورہ بالا حاشیہ میں چند امور وضاحت طلب ہیں:

  1. کیا آدم علیہ السلام حقیقت میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں؟
  2. کیا سیدہ حوا علیہا السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے آدم علیہ السلام کی دلہن ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہو ) ہیں؟
  3. کیا سیدنا آدم علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہنا صریح گستاخی نہیں ہے؟
  4. اس سے تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں ظاہر میں بیویاں ہیں اور حقیقت میں بیٹیاں؟

جناب احمد رضا خان ہی کا ایک شعر ہے:

ظاہر میں میرےپھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں یہ صدا ابو البشر کی ہے

( حدائق بخشش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 75)

اسکی تشریح میں اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ ” آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام جب حضور کو یاد کرتے تو یوں فرماتے «يا ابني صورۃ و ابائي معني» اے ظاہر میں میرے باپ  اور حقیقت میں میرے بیٹے۔“

(حاشیہ نمبر 3، حدائق بخشش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 75)

کیا ’يا ابني صورۃ و ابائي معني‘ کے الفاظ ثابت ہیں؟ معراج کی رات تو حضرت آدم علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت فرمایا: «مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح» نیک نبی اور نیک بیٹے کو خوش آمدید!

( صحیح بخاری 349 ، صحیح مسلم 163، دارالسلام : 415)

اسی طرح ایک شعر ہے کہ:

میں میم بغیر احمد ہوں
اور ع بغیر عرب ہوں

اس میں کیا شان رسالت کو الوہیت تک بیان کردیا گیا ہے؟

  • سائل: علی رضا خانمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 31 جنوری 2018ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

ان کی نبوت ان کی ابوت ہے سب کو عام
ام البشر عروس انہی کے پسر کی ہے

ظاہر میں میرے پھول حقیقت میں میرے نخل
اس گل کی یاد میں صدا ابوالبشر کی ہے

احمد رضا خان، حدائقِ بخشش (حصه اول)، ص: 137، روحانی پبلشرز، لاهور، پاکستان

ان اشعار میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ نورانی کی تخلیق و نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آقا علیہ السلام سے سوال کیا کہ:

یَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 66، رقم: 16676، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. ترمذي، السنن، 5: 585، رقم: 3609، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
  3. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 665، رقم: 4209-4210، بیروت: دار الکتب العلمیة
  4. ابن أبي شیبة، المصنف، 7: 369، رقم: 36553، الریاض: مکتبة الرشد

دوسری روایت میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

قلت: يا رسول اﷲ! بأبی أنت و أمی! أخبرنی عن أوّل شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الأشياء، قال: يا جابر! إن اﷲ تعالی قد خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ تعالی، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملک، ولا سماء ولا أرض، ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي، فلما أراد اﷲ تعالی أن يخلق الخلق، قسم ذالک النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأوّل القلم، و من الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل حملة العرش، و من الثانی الکرسی، و من الثالث باقی الملائکة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل السموت، ومن الثانی الأرضين، و من الثالث الجنة والنار…

’’میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔۔۔۔‘‘

(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 1: 71، بروايت امام عبدالرزاق)

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا۔ اسی واقعہ کی طرف اعلیٰ حضرت نے اشارہ کیا ہے۔

اس وضاحت کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے موجود تھا اور آپ کو نبوت بھی دی جاچکی تھی۔ سورہ الانعام میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ.

فرما دیجئے: بیشک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اﷲ کی طرف یک سو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

الْأَنْعَام، 6: 161-163

یہ آیت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت آدم علیہ السلام پر اولیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے ان اشعار میں جس نبوت و ابوت کو عام کہا گیا ہے، پھول اور نخل کی تشبیہ دی گئی ہے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے جو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل موجود تھا۔ اس سے جسمانی ابوت مراد نہیں۔

  1. یہ بھی ایک شعری استعارہ ہے۔ سیدہ حوا سلام اللہ علیہا کی تخلیق بھی نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی ہے اس لیے سیدہ حوا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی بہو کہا گیا ہے۔ اس سے مراد جسمانی رشتہ نہیں ہے۔
  2. یہاں جسمانی رشتہ مراد ہی نہیں۔ ایک شعری استعارہ ہے جس کی روایات بیان کر دی گئی ہیں اس لیے اس پر گستاخی کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
  3. اشعار میں صرف روحانی نظام کی طرف اشارہ ہے، ظاہری احکام وہی ہیں جو ثابت شدہ ہیں۔ اس لیے ان اشعار کا کوئی دوسرا مفہوم لینا یا اس شعری مبالغہ کی بنیاد پر دیگر احکام کو اخذ کرنا درست نہیں۔
  4. آخری شعر اعلیٰ حضرت کا نہیں ہے۔ یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔ اس طرح کے اشعار کہنے یا پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری