جواب:
شیطان اہل ایمان کے دل میں وسوسہ ڈال کر گمراہ کرنے کی کوششیں کرتا ہے اور بنی آدم کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا کر کے اسے راہ راست سے ہٹانے میں مشغول رہتا ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود ہو کر نکلتے وقت اسی کا وعدہ کیا کہ میں لوگوں کو سیدھی راہ سے ہٹاؤں گا۔ قرآنِ مجید نے اسے یوں بیان کیا ہے کہ:
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِيْمَo ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْم بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْط وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَهُمْ شٰکِرِيْنَo
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قٔسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)۔ پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔
الاعراف، 7: 16، 17
اسی لئے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے شیطانی وسوسہ کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے:
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِلٰهِ النَّاسِo مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِo
آپ عرض کیجیے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پنا ہ مانگتا ہوں۔ جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسل انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
الناس، 114: 1-6
ایک مقام پر فرمایا:
وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِo وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ يَحْضُرُوْنَo
اور آپ (دعا) فرمائیے: اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے میرے رب! میں اس بات سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔
المؤمنون، 23: 97، 98
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَکُمْ فَيَقُولُ مَنْ خَلَقَ کَذَا مَنْ خَلَقَ کَذَا حَتَّی يَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ فَإِذَا بَلَغْهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاﷲِ وَلْيَنْتَهِ.
جب شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا اور فلاں کو کس نے؟ آخر کار دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب بات یہاں تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں پناہ لینی چاہیے اور ایسے خیالات کو ترک کردینا چاہیے۔
معلوم ہوا جب بھی شیطانی خیالات دل میں جنم لیں تو انہیں ختم کر کے فوراً شیطان کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ محض خیال آنے سے بندہ گناہگار نہیں ہوتا جب تک اُن کو زبان پر نہ لائے یا عملی جامہ نہ پہنائے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَکَلَّمْ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میرے امتیوں کے دلوں میں جو وسوسے اور خیالات آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے جب تک ان پر عمل نہ کرے یا زبان سے نہ کہے۔
لہٰذا صرف دل میں گستاخانہ خیال سے آپ ہر گز کافر نہیں ہوئیں۔ یہ شیطانی وسوسے ہیں جونہی ایسا خیال آئے تو اس کو فوراً ختم کر کے اللٰہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں پناہ لینے کے لیے سورہ الناس کی مذکورہ آیات کی تلاوت کر لیا کریں۔ جب بھی کوئی اہل ایمان نیکی کی راہ میں گامزن ہو تو شیطان اس پر حملے کرتا ہے۔ آپ کی کامیابی اسی میں ہے کہ خیالات آتے ہیں ان کو ترک کر دیں اور نیک کاموں میں مشغول ہو جائیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔