کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں؟


سوال نمبر:1919
’’اے اللہ ! مولی مشکل کشا حضرت علی کے طفیل ہماری مشکلیں آسان فرما ’’ یہ دعا کرنا اور ’’یا علی مدد‘‘ کہنا کیسا ہے؟

  • سائل: غلام نبیمقام: کوئٹہ کینٹ
  • تاریخ اشاعت: 26 جون 2012ء

زمرہ: روحانیات  |  استغاثہ و استمداد /نداء یار سول اللہ  |  توسل  |  شرک  |  توحید

جواب:

ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔

قرآن پاک کی روشنی میں :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ

التوبة 9 : 74

’’اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo

التوبة 9 : 59

’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتاo)‘‘

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

المائدة 5 : 2

’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

حدیث پاک سے :

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنة.

ديلمی، مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702

’’جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

حضرت انس ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه

بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670

’’جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے۔

أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض اﷲ علی لسان رسوله ماشاء

بخاری، الصحيح، 5 : 2243، رقم : 5681

’’جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے۔‘‘

حضرت فراس بن غنم سے روایت ہے :

أسال يا رسول اﷲ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين

بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ۔

پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے۔

مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
کیا یا علی مدد اور المدد یا غوث الاعظم کہنا جائز ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی