اسلام میں ذکرِ الٰہی کی کیا فضیلت ہے؟


سوال نمبر:212
اسلام میں ذکرِ الٰہی کی کیا فضیلت ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

’’اسلام میں ذکر الٰہی کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بندہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو خود اللہ رب العزت اسے یاد رکھتا ہے اور ملاء اعلیٰ میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘

 البقره، 2 : 152

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا کہ اے میرے بندو! میرا ذکر کرو، اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں اس کے بدلے میں تمہارا ذکر کروں گا اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَ أنَا مَعَه إِذَا ذَکَرَنِيْ فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُه فِی نَفْسِي، وَ إِنْ ذَکَرَنِی فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِی مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعاً، وَ إِنْ تَقَرَّبْ إِلَيَّ ذِرَاعًا تُقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أتَانِيْ يَمْشِيْ أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.

’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع کے اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں، اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں، اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘

 1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالیٰ ويحذّرکم اﷲ نفسه، 6 : 2694، رقم : 6970.
2. مسلم، الصحيح، کتاب الذکر والدعا، باب الحث علی ذکر اﷲ تعالیٰ، 4 : 2061، رقم : 2675

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر جب تنہا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا ذکر تنہا کرتا ہے اور جب وہ زمین پر مخلوق کا اجتماع منعقد کر کے خود بھی ذکر کرتا ہے اور بندوں سے بھی ذکر کرواتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی عرش پر ارواحِ ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام کی محفل میں اس کے نام کا ذکر کرتا ہے۔ جس مجلس میں بندہ ذکر کرتا ہے وہ کمتر ہے کیونکہ زمین پر یہ اجتماع ہم جیسے گنہگاروں کا ہے جبکہ عرش پر منعقد ہونے والا مجمع ذکر ملائکہ کاہوتا ہے اور وہ بلند تر ہوتا ہے۔

امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں ذکر کی فضیلت میں حضرت عبداللہ بن بسر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :

یا رسول اللہ! اسلامی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں، جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِنْ ذِکْرِ اﷲِ.

’’تیری زبان ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہنی چاہئے۔‘‘

 ترمذی، الجامع، أبواب الدعوات، باب ماجاء فی فصل الذکر، 5 : 458، رقم : 3378

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔