کیا تدفین کے بعد مردے کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:1884
السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین دریں مسئلہ کہ ایک شخص کے والد جو ایک ممتاز روحانی شخصیت ہیں بعد از وفات کسی اور جگہ مدفون ہوئے اب ان کے عزیزوں کی‌ خواہش ہے کہ وہ ان کو وہاں سے منتقل کر دیں ۔ وفات ہوئے 26 سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور جس جگہ وہ مدفون ہیں وہ قبرستان کی جگہ ہے ۔ عزیزوں کی‌ اس خواہش کی وجہ ان کو وسیع احاطےاور اپنی مملوکہ جگہ میں دفن کرنا ہے۔ دفن کرتے وقت امانتا دفن نہیں کیا گیا تھا کیا ان کو منتقل کرنا شرعا درست ہے اگر درست نہیں تو کس سبب سے اور کس صورت میں اجازت دی جاسکتی ہے۔ نیز اسلام میں‌ امانتاً تدفین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ تفصیل سے آگاہ کریں۔ والسلام

  • سائل: بختیار احمدمقام: راولپنڈی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 29 جون 2012ء

زمرہ: احکام میت

جواب:

1۔ مستحب یہی ہے کہ میت جہاں وفات پائے اسی جگہ اس کو دفن کیا جائے۔ لیکن دفن سے پہلے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ جسم کے خراب ہونے اور بدبودار ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن دفن کرنے کے بعد اسے نکالنا صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔

اذا کانت الارض التی دفن فيها مغصوبة أو أخذت بعد دفنه بشفعة

(الهداية)

جب زمین غصب شدہ ہے یا دفن کے بعد اسے کسی نے حق شفعہ کی بناء پر لے لیا۔

ان دو صورتوں میں میت کو قبر سے نکالنا جائز ہے ورنہ نہیں۔

2۔ قرآن و حدیث میں امانتاً دفن کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اس لیے امانتاً دفن کرنا جائز نہیں۔ معاشرے کے اندر جہالت اور لا علمی کی وجہ سے جہاں بے شمار رسومات رواج پا گئی ہیں ان میں سے ایک امانتاً دفن کرنے کی رسم بھی ہے، جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک دفعہ دفن کرنے کے بعد مذکورہ بالا دو صورتوں میں میت کو قبر سے نکالنا جائز ہے، اگر ان میں سے کوئی بھی صورت نہ پائی جائے تو میت کو قبر سے نکالنا جائز نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی