اگر امام تراویح میں تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4893
السلام علیکم مفتی صاحب! اگر کوئی شخص نمازِ تراویح کی دوسری رکعت تشہد بیٹھنے کی بجائے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تیسری اور چوتھی رکعت بھی مکمل کر لے اور آخری تشہد میں‌ سجدہ سہو کر لے تو کیا تراویح ہو جائے گی؟ کیا یہ دو تراویح ہوں‌ گی یا چار؟ اگر امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے کے بعد تلاوت بھی شروع کر دے پھر اچانک یاد آئے تو کیا وہیں سے تشہد میں آ سکتا ہے؟

  • سائل: جنید اعوانمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 22 جون 2018ء

زمرہ: نماز تراویح

جواب:

حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا کہ جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اس طرح وضو کرو جس طرح تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا، پھر اذان کہو، اقامت بھی کہو، اگر قرآن پاک یاد ہو تو پڑھو ورنہ اللہ تعالیٰ کی حمد، تکبیر اور تسبیح و تہلیل کرو، پھر رکوع بیان کرو یہاں تک کہ رکوع میں مطمئن ہو جاؤ پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اعتدال قائم رکھو:

ثُمَّ اجْلِسْ فَاطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ قُمْ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِکَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُکَ وَإِنِ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَیْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِکَ.

پھر اٹھ کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور پھر کھڑے ہو جاؤ، جب تم نے اس طرح کر لیا تمہاری نماز مکمل ہو گئی، اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی نماز ناقص ہو گئی۔

ترمذي، السنن، کتاب أبواب الصلاة، باب ما جاء فی وصف الصلاة، 2: 102، رقم: ، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

إِذَا قَعَدَ قَدْرَ التَّشَهُّدِ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ.

جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ گیا تو اسکی نماز پوری ہوگئی۔

دار قطني، السنن، کتاب الصلوة، باب مفتاح الصلوة الطهور، 1: 460، رقم: 3، بیروت: دار المعرفة

اس بابت فتاویٰ عالمگیری کے فقہاء یوں رقمطراز ہیں:

وَلَوْ صَلَی أَرْبَعًا بِتَسْلِیمَةٍ وَلَمْ یَقْعُدْ فِي الثَّانِیَةِ فَفِي الِاسْتِحْسَانِ لَا تَفْسُدُ وَهُوَ أَظْهَرُ الرِّوَایَتَیْنِ عَنْ أَبِي حَنِیفَةَ وَأَبِي یُوسُفَ رَحِمَهُمَا اﷲُ تَعَالَی وَإِذَا لَمْ تَفْسُدْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ تَنُوبُ الْأَرْبَعُ عَنْ تَسْلِیمَةٍ وَاحِدَةٍ وَهُوَ الصَّحِیحُ کَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَاجِ وَهَکَذَا فِي فَتَاوَی قَاضِي خَانْ وَعَنْ أبِي بَکْرٍ الْإِسْکَافِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قاَمَ إلَی الثَّالِثَةِ فَي التَّرَاوِیحِ وَلَمْ یَقْعُدْ فِي الثَّانِیَةِ قَالَ إنْ تَذَکَّرَ فِي الْقِیَامِ یَنْبَغِي أَنْ یَعُودَ وَیَقْعُدَ وَیُسَلِّمَ وَإِنْ تَذَکَّرَ بَعْدَمَا سَجَدَ لِلثَّالِثَةِ فَإِنْ أَضَافَ إلَیْهَا رَکْعَۃً أُخْرَی کَانَتْ هَذِہٖ الْأَرْبَعُ عَنْ تَسْلِیمَةٍ وَاحِدَةٍ وَإِنْ قَعَدَ فِي الثَّانِیَةِ قَدْرَ التَّشَهُدِ اخْتَلَفُوا فیه فَعَلَی قَوْلِ الْعَامَّةِ یَجُوزُ عَنْ تَسْلِیمَتَیْنِ وَهُوَ الصَّحِیحُ.

اگر چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اور دوسری رکعت میں قعدہ نہ کیا تو بطور استحسان کے نماز فاسد نہ ہو گی، امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہمااللہ سے دو روایتیں ہیں اور دونوں روایتوں میں سے زیادہ ظاہر روایت یہی ہے (یعنی نماز فاسد نہ ہوگی) اور محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ وہ چار رکعتیں بجائے ایک تسلیمہ یعنی ایک سلام کے قائم مقام ہونگی اور یہی صحیح ہے اور یہ سراج الوہاج میں لکھا ہے اور یہی فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے۔ ابوبکر اسکاف سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی شخص نے تراویح کی دوسری رکعت میں قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کو کھڑا ہو گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر اس کو قیام میں یاد آگیا تو اس کو چاہیے کے لوٹے اور قعدہ کرے اور سلام پھیردے اور تیسری رکعت کے سجدہ کرلینے کے بعد یاد آیا توایک رکعت اور بڑھائے اور یہ چاروں رکعتیں ایک سلام کے قائم مقام ہونگی اور اگر دوسری رکعت میں بقدر تشہد بیٹھ لیا ہے تو اس میں اختلاف ہے اکثر کا قول یہ ہے کہ دو سلام ادا ہوجائیں گے (یعنی چاروں رکعتیں ادا شمار ہونگی) اور یہی صحیح ہے۔

الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، 1: 118، بیروت: دار الفکر

درج بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر دو تراویح کے بعد امام اطمنان سے بیٹھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے‘ چاہے تشہد نہ بھی پڑھے تو چوتھی رکعت ساتھ ملانے سے چار تراویح شمار ہوں گی۔ اگر دو تراویح کے بعد بغیر بیٹھے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا تو چوتھی رکعت بھی ساتھ ملائے گا مگر یہ دو تراویح شمار ہوں گی اور دو نفل ہوں‌ گے۔ یاد رہے دونوں صورتوں میں سجدہ سہو لازم ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری