اگر مدعی ثبوت پیش کرنے میں‌ ناکام رہے تو معاملے کا فیصلہ کیسے ہوگا؟


سوال نمبر:3857
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! عرض یہ ہے کہ میرا تعلق افغانستان سے ہے۔ ہمارے گا‍‍‌ؤں کی کچھ زمینیں جو کہ قابل کاشت ہیں، وہ علیحدہ علیحدہ اور تقسیم شدہ ہیں جبکہ باقی زمینیں جو کہ قابل کاشت نہیں ہیں وہ ابھی تک مشترکہ اور اکٹھی ہیں مگر خاندان کے حساب سے ہر خاندان کا حصہ آباؤ و اجداد کے وقتوں سے طے شدہ ہے. گاؤں کا رواج یہ تھا اور ہے کہ اگر ایک شریک مشترکہ زمین بیچ دے تو باقی شریکوں کو اس کی مساوی قیمت یا پھر مساوی زمین دیتا ہے۔ افغانستان میں روس کے آنے سے دو سال پہلے ہمارے ایک شریک نے اپنے حصے کی زمین کسی آدمی کو بیچ دی تھی۔ بیچنے والا اور خریدار دونوں فوت ہو چکے ہیں۔ اب خریدار آدمی کے بیٹے ساری مشترکہ ‎زمین پر زبردستی قبضہ کے در پہ ہیں وہ درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں۔ 1. ہمارے پاس زمین خریدنے کا عرفی خط ہے۔ (عرفی خط وہ خط ہے جو گورنمنٹ کے کھاتے میں درج نہ ہو یعنی قانونی حیثیت نہیں رکھتا مگر عام لوگ اسے مانتے ہوں مثال کے طور پر دکاندار کا بل یا اشٹام) 2. جب ہم اس زمین میں کنواں کھود رہے تھے تو اس وقت کے لوگوں نے ہمیں کیوں نہیں روکا؟ 3. گزشتہ 36 سالوں میں آپ لوگ ہم پر معترض کیوں نہ ہوۓ۔ ان کے ذکرشدہ دلائل کے جواب میں گاؤں کے لوگ درج ذیل جوابات رکھتے ہیں۔ 1. وہ خط جو خریدار کے بیٹوں کے پاس ہے قطعی جھوٹا ہے کیونکہ جن لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات ہیں ان میں سے دو لوگ زندہ ہیں جو اس خط سے بالکل انکار کررہے ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ مدعی ہمارے انگوٹھوں کے نشانات لیبارٹری میں چیک کر لے مگر مدعی ایسا کرنے سے دور جا رہا ہے۔ کیا ہم شرعی طور پر فوت شدہ (فوتشدگان کے آئی ڈی کارڈ پر انگوٹھوں کے اصلی نشانات موجود ہیں) اور زندہ لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات لیبارٹری میں چیک کرنے کا حق رکھتے ہیں؟؟؟ براہ کرم حوالہ جات کے ساتھ راہنمائی فرمائیں۔ 2. ایک کنواں جتنی جگہ سیراب کر سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ جگہ بیچنے والے آدمی کی اس زمین میں بنتی تھی اس لئے گاؤں والوں نے اس وقت خریدار پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ 3. ساری دنیا گواہ ہے کہ افغانی مسلمان گزشتہ 36 سالوں سے ہجرت کی حالت میں ہیں مگر پھر بھی جو لوگ گاؤں میں موجود تھے انھوں نے متعدد بار اعتراضات کئے جن کے تحریری ثبوت موجود ہیں اور مدعی خود بھی اس دوران زمین اگاتا نہیں رہا بلکہ ویسے ہی سال میں ایک آدھ بار چکر لگاتا تھا جس پر گاؤں والوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ کچھ زمین ان کے شریک سے خرید چکا ہے گو کہ اس کے پاس کسی قسم کا تحریری ثبوت بھی نہیں تھا۔ براہ مہربانی شرعی حوالہ جات کے ساتھ وضاحت فرمائیں کہ زمین کا حق کن کا بنتا ہے اور فریقین کے کون سے نکات کس حد تک درست ہیں؟ جزاک اللہ خیرا

  • سائل: رحمان خانمقام: افغانستان
  • تاریخ اشاعت: 01 اگست 2016ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

جو شخص ساری زمین خریدنے کا دعویٰ کر رہا ہے وہ ثبوت لائے اور آپ کے ہاں قائم جرگہ سسٹم میں یا عدالت میں پیش کرے۔ انصاف کرنے والا ادارہ پیش کردہ ثبوتوں کو لیبارٹری میں چیک کروائے اور پوری تسلی سے انکوائری کرے۔ فوت شدگان اور زندہ لوگوں کے انگوٹھوں کے نشات بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ کروائیں تاکہ ان کے پیش کیے جانے والے ثبوتوں کی اصلیت کا پتہ چل سکے۔ اگر مدعی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے تو مدعا علیہ حلف دے گا جس کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔

احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ کَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ قَضَی بِالْيَمِينِ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْهِ.

’’حضرت ابن ابی مُلَیکہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لکھا کہ نبی کریم نے مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ فرمایا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 2: 949، رقم: 2524، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1336، رقم: 1711، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  3. أبو داؤد، السنن، 3: 311، رقم: 3619، دار الفکر
  4. ترمذي، السنن، 3: 626، رقم: 1342، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ اَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ کِنْدَةَ إِلَی النَّبِيِّ فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اﷲِ! إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَی أَرْضٍ لِي کَانَتْ لِأَبِي. فَقَالَ الْکِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم لِلْحَضْرَمِيِّ أَلَکَ بَيِّنَةٌ؟ قَالَ: لَا. قَالَ فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَأْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 1: 123، رقم: 139
  2. ابو داؤد، السنن، 3: 221، رقم: 3245
  3. ترمذي، السنن، 3: 625، رقم: 134۰

مذکورہ بالا تصریحات سے یہ اصول ملا کہ مدعی (دعویٰ کرنے والا) ثبوت پیش کرے، اگر ثبوت نہ ہو تو مدعیٰ علیہ (جس پر دعویٰ کیا جائے) وہ قسم یا حلف دے گا۔

لہٰذا زمین خریدنے کا دعویٰ کرنے والا ثبوت دے، اگر وہ قابلِ یقین ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو مدعیٰ علیہ حلف دے گا۔ ثبوت پیش کرنے کی صورت میں انگوٹھوں کے نشانات لیبارٹری میں چیک کروائے جا سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری