شدید غصّے کی حالت میں بلا ارادہ طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3289
السلام علیکم! میں کافی عرصے سے ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں اور اب میں نے اس کا علاج بھی شروع کر دیا ہے۔ کئی بار میرے ذہن میں خودکُشی کا بھی خیال آیا ہے مگر اللہ کا شکر ہے کہ محفوظ رہا۔

میری شادی 26 مارچ 2013 کوانتہائی نا مساعد حالات میں ہوئی تھی۔ بہن بھائیوں کی طرف سے بھی مجھے بے شمار مسائل کا سامنا رہا ۔ اس کے علاوہ میرے کئی معاشرتی اور معاشی مسائل ہیں۔ میں ایک سرکاری پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں۔ سکول میں بھی جب مجھے غصہ آتا ہے تو بہت شدید ہوتا ہے۔ میرا جسم کانپنا شروع ہو جاتا ہے اور میں حواس باختہ ہو کر نہ جانے کیا کیا بول جاتا ہوں۔ اور بچوں کو شدید مار پیٹ بیٹھتا ہوں، پھر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ سکول میں ہم صرف 2استاد 6 کلاسوں کو پڑھاتے ہیں، جس سے میں دماغی طور پر بہت تھک چکا ہوتا ہوں۔

پچھلے دنوں حالات یہ تھے کہ گھر میں بھی چین نصیب نہ تھا اور باہر بھی۔ وہ اس طرح کہ ہمارے پہلے بچے کے رات کو رونے کی وجہ سے نیند بھی میسر نہ آتی تھی۔ مزید یہ کہ میری بیوی کی دماغی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ اسے اپنے ستر کا بھی احساس نہ رہتا تھا، اور نہ ہی وہ اپنے نو مولود بچے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

ان تمام باتوں سے میں مزید ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور اس دوران میں نے اپنی بیوی کو بھی ڈانٹا پیٹا، حالانکہ ایک سالہ شادی شدہ زندگی میں پہلے میں نے اسے کبھی نہیں مارا تھا۔ میری ساس جوگھر کے کام کاج کے لیے میرے گھر میں موجود تھی اُسے بھی میں نے لڑ جھگڑ کر کہا کہ آپ اپنے گھر جائیں یعنی میری بیوی جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہے۔ اُس نے گھر جا کر اپنے شوہر اور بیٹے کو سارے حالات بتائے اور انہوں نے رات کو میرے گھر آتے ہی میری بے عزتی کرنا شروع کر دی اور میری بیوی کا بھائی مجھ سے لڑنے پر تُلا ہوا تھا۔ ہماری اس بحث کے دوران میرے منہ سے انتہائی غصے میں بلا ارادہ و اختیار یہ نکلا: ’’نالے اینوں میری طرفوں تن طلاق‘‘ یعنی ’’اور اسے میری طرف سے تین طلاق‘‘۔ مزید یہ کے مجھے طلاق کے مسائل کا بھی علم نہیں ہے۔ مفتی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ میری موجودہ ذہنی جذباتی کیفیات اور شدید ڈپریشن کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں میرے مسئلے کا حل نکالیے۔

جزاک ا للہ!

  • سائل: محمد جاویدمقام: جڑانوالہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 12 جون 2014ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق صریح  |  مریض کی طلاق

جواب:

آپ نے جو اپنی ذہنی کیفیت بیان کی ہے، ایسی صورت میں تو اسلام شادی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اسلام انسانیت کو حقوق عطا کرنے آیا ہے اور وہ قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے حقوق اور زندگی کو برباد کرے۔ آپ کی حالت خواہ کیسی بھی ہو، آپ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی بیوی کو مار پیٹ کریں یا بچوں پر تشدد کریں۔ اب جبکہ آپ بےروزگار یا بے اولاد بھی نہیں ہیں تو آپ کا اس طرح کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

بہرحال جو مسئلہ آپ نے دریافت کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو واقعی یہ الفاظ بلا ارادہ و نیت اور بے اختیار انتہائی غصے کی کیفیت میں آپ کے منہ سے نکل گئے ہیں تو پھر طلاق واقع نہیں ہوئی۔ آپ اپنا رویہ بدل کر بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر غصے کی کیفیت شدید نہیں تھی اور آپ با ہوش و حواس تھے تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔ اس صورت میں آپ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔

اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کے غصے کی حالت کون سی تھی؟ مسئلہ چونکہ حلال و حرام کا ہے اس لیے سچ بولنا اور صدق کے ساتھ فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ غلط بیانی کی صورت میں ساری زندگی گناہِ کبرہ کے مرتکب ہوں گے۔

مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

کیا انتہائی غصہ میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی