نماز میں‌ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟


سوال نمبر:2453
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے یا ناف سے اوپر۔ اگر نیچے باندھنا سنت ہے تو جو اوپر والی روایات ملتی ہیں انکا رد بھی دیں۔ ان میں‌ کیسے تطبیق پیدا کریں گے؟

  • سائل: عاصم محمودمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 15 جون 2013ء

زمرہ: نماز

جواب:

نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔ اس کے متعلق احادیث اور آثار درج ذیل ہیں:

1. عن علی رضی الله عنه قال ان من السنة فی الصلة وضع الأکف علی الأکف تحت السرة.

"حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔

أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 110، رقم : 875، مؤسسة قرطبة مصر

2. عن أبی جحيفة ان علي رضی الله عنه قال السنة وضع الکف علی الکف فی الصلة تحت السرة.

'ابو جحیفۃ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نماز میں ایک ہتھیلی  کا دوسری پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

أبو داؤد، السنن، 1 : 201، رقم : 756، دار الفکر

3. عن علی أنه کان يقول ان من سنة الصلة وضع اليمين علی الشمال تحت السرة.

'حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے'۔

  1. دار قطنی، السنن، 1 : 286، رقم : 10، دار المعرفة بيروت

  2. بيهقی، السنن الکبری، 2 : 31، رقم : 2171، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

4. عن ابرهيم قال يضع يمينه علی شماله فی الصلة تحت السرة.

حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے رکھے۔

أن أبی شيبه، المصنف، 1 : 343، رقم : 3939، مکتبة الرشيد الرياض

5. عن علی قال من سنة الصلاة وضع لأيدی علی الأيدی تحت السرر.

'حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز میں ہاتھوں پر ہاتھ نافوں کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

ابن ابی شيبه، المصنف، 1: 343، رقم : 3945

مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ بھی بہت ساری روایات موجود ہیں۔ اسی طرح ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں بھی روایات موجود ہیں، لیکن ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی زیادہ قوی ہیں۔

تطبیق یہ ہے کہ نماز فرض ہونے کے فورا بعد ہی صحابہ کرام پر سختی نہیں کی گئی تھی کہ خاموشی کے ساتھ کھڑے ہونا، ادھر ادھر نہیں دیکھنا یا ہاتھ اسی طرح ہی باندھنا ہیں بلکہ یہ تمام طریقے آہستہ آہستہ لاگو کیے گئے۔ جس طریقہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری دور میں نماز پڑھی اس کو زیادہ ترجیح دی جائے گی ورنہ تو جس طرح بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی وہی سنت ہے۔ اللہ تعالی نے ایسا اہتمام فرما دیا ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی تمام سنتیں زندہ ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی