بے نظیر بھٹو کو شہید جمہوریت کہنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:1372
گزشتہ دنوں ستائیس دسمبر کو سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی برسی گزری۔ مجھے اس دن کسی نے بتایا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بے نظیر کی وفات کے بعد اسے شہید جمہوریت کا خطاب دیا تھا۔ کیا آپ وضاحت فرمائیں کے ہماری سابق وزیر اعظم کس طرح شہید کہلا سکتی ہیں؟ آپ کی بہت ممنون ہوں‌گی۔

  • سائل: تسلیممقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 03 جنوری 2012ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

آپ کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی الم ناک ہلاکت کے واقعے کے بعد انہیں شہید جمہوریت کا خطاب دیے جانے پر سوال موصول ہوا۔ اس بابت چند معروضات پیش خدمت ہیں:

  1. سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شہید جمہوریت کا خطاب حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے نہیں دیا بلکہ پاکستان عوامی تحریک کی ایگزیکٹو باڈی نے دیا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ موصوفہ نے پاکستان کے اندر جمہوریت کی بحالی اور قیام کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی۔ لہٰذا جمہوریت کے لیے ان کی خدمات اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کی ایگزیکٹو باڈی نے انہیں یہ خطاب دیا ہے۔
  2. ثانیا یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ شہید صرف وہی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر میدان جہاد میں دشمن سے لڑتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دے، شرعاً شہادت کی کئی اقسام ہیں۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے میدان جہاد میں دشمن سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دینا شہادت کا اَوّلین درجہ ہے۔
  3. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ.

ایک مرتبہ ایک شخص راستے پر چل رہا تھا، اس نے راستے میں کانٹوں والی شاخ پڑی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ تعالی نے اس کی یہ نیکی قبول فرما لی اور اسے بخش دیا۔

پھر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.

شہداء پانچ قسموں کے ہوتے ہیں: طاعون زدہ، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، پانی میں ڈوب کر مرنے والا، دیوار گرنے سے دب کر ہلاک ہونے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔

صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ سے مذکورہ بالا حدیث مبارکہ واضح کرتی ہے کہ شہادت ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ اِس سے اگلی حدیث مبارکہ اس کی مزید تشریح بیان کرتی ہے، جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

  1. ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہید کی تعریف بتانے کے لیے صحابہ کرام سے پوچھا: شہید کون ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ شہید وہ ہے جو اللہ کے راستے میں قتل کیا جائے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (اگر شہید کی یہی تعریف ہے تو) اس طرح میری امت میں شہداء کی تعداد بہت کم ہوگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو فکری واضحیت عطا کرنے کے لیے شہادت کی مختلف قسمیں گنوائیں اور انہیں باور کرایا کہ شہید صرف وہی نہیں جسے میدان جہاد میں قتل کیا جائے۔ بلکہ شہادت بہت وسیع المعنی لفظ ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں۔ حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ. قَالَ: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ. قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار: تم شہید کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جسے اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تو میری امت کے شہداء بہت کم ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے، اور جو شخص اللہ کی راہ میں مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے اور جو شخص پیٹ کی بیماری میں مرے وہ شہید ہے۔

اس کے علاوہ بھی کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں شہادت کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ مذکورہ بالا احادیث میں پانچ اشخاص پر شہید کا اطلاق کیا گیا ہے، جب کہ سنن ابی داود کی کتاب الجنائز میں حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں تین اور اشخاص کا اضافہ کیا گیا ہے۔

  1. حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ فَصَاحَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: غُلِبْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا الرَّبِيعِ. فَصَاحَ النِّسْوَةُ وَبَكَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ. قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الْمَوْتُ. قَالَتْ ابْنَتُهُ: وَاللَّهِ! إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا، فَإِنَّكَ كُنْتَ قَدْ قَضَيْتَ جِهَازَكَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟ قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ بن ثابت کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو انہیں بے ہوش پایا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زور سے آواز دی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے فرمایا: اے ابو الربیع! ہم تمہارے میں مغلوب ہو گئے ہیں۔ چنانچہ (گھر کی) عورتیں چیخنے اور رونے لگیں اور حضرت ابن عتیک انہیں چپ کراتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو، جب واجب ہو جائے تو اس وقت کوئی رونے والی نہ آئے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: واجب ہونا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: موت۔ ان کی صاحبزادی نے (اپنے والد عبد اللہ بن ثابت کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا: خدا کی قسم! ہم تو یہ امید رکھتے تھے کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ جہاد کی تیاری کر چکے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے ان کی نیت کے مطابق ان کو ثواب دیا ہے اور تم شہادت کس چیز کو شمار کرتے ہو؟ عرض کی: اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ بھی سات قسم کی شہادت اور ہے: طاعون سے مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، ذات الجنب سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، دب کر مر جانے والا شہید ہے اور بچے کی ولادت کے باعث مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔

امام بخاری نے الصحیح کی کتاب المظالم والغضب میں ان آٹھ قسموں کے علاوہ ایک اور قسم بیان کی ہے۔

  1. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ.

جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔

  1. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُظْلَمُ بِمَظْلَمَةٍ فَيُقَاتِلَ فَيُقْتَلَ إِلَّا قُتِلَ شَهِيدًا.

جب کوئی مظلوم مسلمان (ظالموں کے خلاف) برسر پیکار ہوتے ہوئے قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

  1. امام ترمذی نے الجامع کے ابواب الدیات میں مال کے علاوہ جان کی حفاظت، بیوی بچوں کی حفاظت اور دین کے حفاظت میں قتل کیے جانے والے شخص کے متعلق بھی حدیث روایت کی ہے جس میں انہیں شہید کہا گیا ہے۔ اس طرح تیرہ قسمیں ہوجاتی ہیں۔
  2. امام احمد بن حنبل نے المسند میں ایک حدیث روایت کی ہے جس میں سواری سے گر کر مرنے والے کو بھی حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے شہید فرمایا ہے۔ (ج: 2، ص: 441)
  3. ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں مرگیا وہ شہید ہے۔ اللہ کے راستہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص علم دین پڑھتے یا پڑھاتے ہوئے مر گیا یا نماز کو جاتے راستے میں مر گیا یا حج کو جاتے ہوئے مر گیا یا دینی کتب کی تصنیف و تالیف کے دوران میں مر گیا یا اللہ کی رضا جوئی میں کسی بھی نیک کام کی انجام دہی کرتے ہوئے مر گیا تو وہ شہید ہے۔ اس طرح شہید کی پندرہ اقسام ہو گئی ہیں۔
  4. ایک روایت میں پہاڑ سے گر کر مرنے والے اور جس کو درندے کھا لیں اسے بھی شہید فرمایا گیا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق)
  5. ایک روایت میں حالت نفاس میں مرنے والی عورت کو بھی شہید فرمایا گیا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق)
  6. اسی طرح ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے یا اپنے اہل و عیال کے لیے رزق حلال کی طلب میں مر جائے تو وہ بھی شہید ہے۔ (مصنف عبد الرزاق)
  7. ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص بھی کسی مصیبت میں مبتلا ہوکر فوت ہو وہ شہید ہے۔ (مصنف ابن ابی شيبه)
  8. بعض روایات میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعا کرے تو (وہ جس حالت میں بھی مرے) اسے شہادت کا درجہ ملتا ہے۔ (المستدرک للحاکم، سنن الدارمی)
  9. ایک روایت میں ہے کہ تپ دق کے مرض اور سفر میں مرنے والا بھی شہید ہے۔ (مجمع الزوائد)
  10. اسی طرح جو شخص دن میں پچیس بار یہ دعا کرے اور فوت ہو تو اسے شہید کا اجر عطا کیا جائے گا:

اللهم! بارك في الموت وفيما بعد الموت. (مجمع الزوائد)

  1. نیزہ کی ضرب سے مرنا بھی شہادت ہے۔ (کنز العمال)
  2. ایک روایت میں بخار کی حالت میں مرنے والے کو بھی شہید کہا گیا ہے۔ (کنز العمال)
  3. جو شخص سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔ (کنز العمال)
  4. جو شخص کسی گڑھے میں گر کر مرگیا وہ بھی شہید ہے۔ (کنز العمال)

اس طرح مذکورہ بالا حوالہ جات کے مطابق شہید کی کل انتیس قسمیں بنتی ہیں۔ جب کہ مزید احادیث بھی اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں، جن کے مطابق شہید کی کل قسمیں تقریبا پنتالیس ہیں۔

  1. مندرجہ بالا تفصیلات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مطلق شہید کہا جائے تو وہ اِصطلاح حدیث کے مطابق شہید ہے، لیکن اگر ساتھ کوئی اضافت لگا دی جائے تو وہ حالات و واقعات کے تناظر میں ایک خطاب ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ اس پر شرعی مفہوم کا اطلاق ہو۔ مثلا بانی پاکستان محمد علی جناح کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انہیں قائد اعظم کا خطاب دیا گیا جس کا لفظی معنی ہے: تمام قائدین و اکابرین سے بڑا قائد۔ مسلمانان ہند کی طرف سے یہ ایک سیاسی ٹائٹل تھا جس کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ محمد علی جناح اپنے سے قبل کے تمام سیاسی و مذہبی مسلم قائدین سے بڑے رہنما اور اعلی شخصیت تھے۔ مراد یہ کہ جب مخصوص اضافت لگ جائے تو معنی بھی خاص ہوجاتا ہے۔
  2. رہ گئی شہادت کی مختلف اقسام اور ان کے درجات تو جس کی شہادت جس درجہ کی ہوگی اسے اسی قدر درجات نصیب ہوں گے اور ثواب ملے گا۔ یعنی وہ شہادت جس قدر گناہوں کا کفارہ بن سکی بنے گی جب کہ بقیہ گناہوں کے حساب سے سزا کا معاملہ باقی رہے گا۔ کیونکہ درج بالا اقسام میں سے شہادت کی کوئی قسم پالینے کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی زندگی کے تمام معاملات صاف ہوگئے ہیں۔ پتہ نہیں دنیاوی زندگی میں کیا کیا اعمال ہوئے ہوں گے۔ چھوٹے درجے کی شہادت نصیب ہوجانے سے دخولِ جنت کا پروانہ نہیں مل جاتا۔ البتہ یہ شہادت اپنے حساب سے گناہوں کا کفارہ ضرور بنتی ہے، اس سے حساب کتاب کا معاملہ ختم نہیں ہوتا۔

لہٰذا ان تفصیلات کی روشنی میں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے ناقابل فراموش خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے انہیں شہید جمہوریت کہ دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

امید ہے آپ معاملہ کی تہ تک پہنچ کر نفس مسئلہ کو سمجھ گئی ہوں گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد فاروق رانا