کیا صحابہ کرام کی زندگیاں احسان و تصوف کا عملی نمونہ تھیں؟


سوال نمبر:111
کیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگیاں احسان و تصوف کا عملی نمونہ تھیں؟ مثالوں سے اس کی وضاحت کریں؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی زندگیاں احسان و تصوف کا عملی نمونہ نظر آتی ہیں۔ تمام صحابہ کرام کے احوال تقویٰ و عبادت، زہد و ورع، ریاضت و مجاہدہ کے عملی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ رقتِ قلب، خشیت الٰہی، گریہ و زاری، خوف و رجاء، جود و سخا، کثرت عبادت و ریاضت، خوفِ آخرت، محبت الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شوقِ جہاد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کے نمایاں اوصاف تھے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رات بھر نمازیں پڑھتے اور دن کو اکثر روزہ رکھتے، خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت کھڑے نظر آتے، رقت قلبی اس حد تک تھی کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی تھی۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھا کہ ان کے چہرہ مبارک پر مسلسل رونے اور آنسوؤں کے جاری رہنے سے دو سیاہ خط بن گئے تھے۔

 امام غزالی، مکاشفة القلوب : 28

صوفیائے کرام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات کو اپنے لیے نمونہ اور نشانِ راہ بنائے ہوئے تھے، وہ پیوند لگے کھردرے کپڑے پہنتے، ترک شہوات فرماتے، مشکوک چیزوں سے اجتناب فرماتے۔ زمین سے تنکا اٹھا کر کہتے کہ اے کاش میں یہ تنکا ہوتا، اے کاش میں پیدا نہ کیا جاتا، اے کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی، اے کاش میں کچھ نہ ہوتا۔ اے کاش میں بھلا دیا گیا ہوتا۔

 امام شعرانی، الطبقات : 78

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے، رات کو قیام فرماتے اور تنہائی میں روتے، اور اکثر ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کرتے اور جب کسی قبر سے گزرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک بھیگ جاتی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :

ان کان ما عَلِمْتُ صواماً قواماً.

’’میں نے آپ سے بڑھ کر روزہ رکھنے والا اور (راتوں کو) قیام کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘

 ترمذی، الجامع : 1008، رقم : 3883، کتاب المناقب، باب فضل فاطمة رضی الله عنها بنت محمد صلی الله عليه وآله وسلم

آپ رضی اللہ عنہ رات بھر نماز ادا فرماتے، بہت تھوڑا سستاتے، اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ لیتے اور سانپ کی طرح لوٹتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح گریہ و زاری کرتے رہتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی، آپ دنیا کو مخاطب کر کے فرماتے اے دنیاً میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے میں نے تجھے تین طلاقیں دے رکھی ہیں، تیری عمر تھوڑی ہم نشینی حقیر اور تیرا ذکر بہت برا ہے۔

 امام شعرانی، الطبقات : 81

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔