شوہر سے زور زبردستی اور دھونس سے طلاق پر دستخط کروانے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6122
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! ایک مسئلہ کے سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے شرعی حکم درکار ہے۔ کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب کہ ایک شخص کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر، بازو یا ٹانگ پر گولی مار کر معذور کر دینے کی دھمکی، اغوا کا جھوٹا مقدمہ کر کے جیل کی دھمکی، اینٹی کرپشن میں جعلی مقدمہ کر کے سرکاری نوکری ختم کر وانے کی دھمکی دے کر زبردستی تحریری طلاق پر بغیر نیت و ارادے کے دستخط کر وانے سے کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ جبکہ فریق مخالف صرف زبانی دھمکیاں نہیں دے رہے تھے بلکہ وہ نا صرف یہ سب کچھ کرنے پر قادر ہیں بلکہ وہ سچ میں ایسا کر گزرتے ہیں جبکہ وہ شخص سرکاری نوکری کی وجہ سے نا تو کہیں چھپ سکتا تھا اور نا کہیں جا سکتا تھا اور اس کو مکمل یقین بھی تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ ایسا ضرور کریں گے اور اگر وہ کہیں چلا جاتا تو اس کی سرکاری نوکری ختم ہو جاتی مطلب نوکری ختم ہونے کے ڈر سے وہ کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے صرف تحریر ی طلاق پر دستخط کیے جبکہ زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے، مطلب زبانی طور پر طلاق نہیں دی اور نا ہی طلاق کے کاغذ تیار کروائے ہیں۔ طلاق کے کاغذ بھی لڑکی والوں نے خود لکھوایا اور بندہ نے صرف دستخط کئے اور کاغذ پر "طلاق طلاق طلاق (ثلاثہ)" لکھا تھا۔ مہربانی فرما کر جلد سے جلد شرعی حیثیت سے حکم سے آگاہ کیا جائے۔ جزاک اللہ خیرا کثیراً

  • سائل: محمد تنو یر شہزادمقام: اوکاڑہ
  • تاریخ اشاعت: 13 جنوری 2023ء

زمرہ: طلاق

جواب:

صورتِ مسئلہ کے مطابق اگر اس شخص کو واقعی جان سے مارنے اور جعلی مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر دستخط کروائے ہیں اور وہ لوگ دھمکی پوری کرنے پر قادر بھی تھے تو ایسی صورت میں طلاق نامہ پر دستخط لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ یہ جبری طلاق ہے اور اسلام میں جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے مذکورہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کر سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں ان کا نکاح برقرار ہے۔ جبری طلاق کی مزید وضاحت کیلئے ملاحظہ کیجیے:

کیا مُکرَہ کی زبانی طلاق شرعاً معتبر ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری