الفاظِ صریح کے بعد کنایہ کے الفاظ سے دی گئی طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5983

السلام علیکم! میرے ایک عزیز کی اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی جون 2020ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ اس کی بیوی لڑائی کر کے بچوں کو ساتھ لے کر اپنے میکے چلی گئی۔ یہ صاحب ہمارے پاس جولائی کے پہلے ہفتے میں آئے ساتھ کچھ دوسرے مہمان بھی تھے۔ اس نے اپنے بھتیجے سے موبائل کے ذریعہ میسیج کروایا کہ چاچو تمہیں طلاق دے رہے ہیں۔ اس کی بیوی نےاپنے بھائی سے فون کروایا کہ یہ کون ہوتا ہے ہمیں اس طرح کے میسیج کرنے والا۔ اس صاحب نے اسے کہا اس نے میسیج نہیں کیا میں نے اس سے میسیج کروایا ہے۔

1۔ اس نے احسن اور حمزہ سے 50000 روپے کی شرط بھی لگائی (احسن اور حمزہ کہتے تھے کہ آپ نے پھر اپنی بیوی سے صلح کر کے اسے گھر لے آنا ہےکیونکہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ لڑائی کر کے وہ گھر چھوڑ چکی تھی۔ اس صاحب نے احسن اور حمزہ سے 50000روپے کی شرط لگائی کہ اس دفعہ ضرور طلاق دے دینی ہے۔)

2۔ اس کے بعد یہ صاحب اپنے گاؤں ضلع کچہری وکیل کے پاس گئے۔ طلاق اول لکھوائی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں۔ لیکن بذریعہ ڈاک پوسٹ نہیں کی۔ (جس کا درافٹ میرے پاس محفوظ ہے)

3۔ اس نے اپنی سالی سے کچھ روپے لینے کے لئے فون کیا جو کہ اس کی سالی نے اس سے ادھار لئے ہوئے تھے کہ میرے پیسے واپس کرو اور ’میرا ہن تیری بہن نال کوئی تعلق نئیں اے میرے ولوں ہن فارغ اے‘ یعنی اب میرا تیری بہن کےساتھ کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ پیسے آپ کو مل جائیں گے۔آئندہ مجھے فون نہیں کرنا۔ جب میری بہن کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا تو میرے ساتھ بھی تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

4۔ یہی الفاظ اس صاحب نے اپنے سالے کو کئی بار کہے جو 3 نمبر پر تحریر کیے ہیں۔ جو ان کی صلح کروانے کے لئے ان کو بار بار فون کرتا تھا۔

5۔ اس قسم کے الفاظ متعدد بار ایس ایم ایس اپنی سالی اور سالےکو کئے اور کئی لوگوں سے ذکر بھی کئے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان صاحب کی بیوی کو طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی؟ طلاق کی نوعیت کیا ہے؟ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔

  • سائل: اشفاق احمدمقام: واہ کینٹ/پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 24 جون 2023ء

زمرہ: طلاق

جواب:

صورتِ مسئلہ کے مطابق بھتیجے سے کرائے گئے میسیج میں تو شوہر نے اطلاع دی ہے کہ طلاق کا عمل ہونے جا رہا ہے، پھر اس کے بعد طلاق لکھوائی کہ ’میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں‘۔ اس جملے سے طلاقِ رجعی واقع ہوئی، یعنی نکاح فوراً ختم نہیں ہوا بلکہ عدت شروع ہوگئی، اگر دورانِ عدت زوجین میں صلاح ہو جاتی تو نئے نکاح کی ضرورت نہ ہوتی اور صلاح سے رجوع ہو جاتا۔ بعد میں اُسی بیوی کی بہن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا تیری بہن نال کوئی تعلق نئیں، ایہہ میرے ولوں فارغ اے‘ اس سے طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور ان کا نکاح ختم ہوگیا۔ نکاح ختم ہونے کی بعد شوہر نے جو بھی الفاظ بولے ہیں وہ بے اثر ہیں کیونکہ نکاح ختم ہونے سے محلِ طلاق ختم ہو گیا۔ حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ.

’’ابن آدم (انسان) جس چیز کا مالک نہیں اس میں اس کے لیے نہ نذر ہے، نہ آزاد کرنا ہے، نہ ہی طلاق ہے اور نہ ہی اس کے لیے قسم ہے۔‘‘

أحمد بن حنبل، المسند، 2: 190، الرقم: 6780، مصر: مؤسسة قرطبة

الترمذي، السنن، كتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء لا طلاق قبل النكاح، 3: 486، الرقم: 1181، بيروت: دار إحياء التراث العربي

سوالنامے میں بیان کردہ صورتحال کے مطابق طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کی درج ذیل صورتیں بنتی ہیں:

1۔ اگر شوہر نے طلاق کا نوٹس لکھوانے سے پہلے کبھی صریح الفاظ کے ساتھ طلاق نہیں دی تھی، تو نوٹس سے طلاقِ رجعی واقع ہوئی اور بعد میں بولے گئے کنایہ کے الفاظ ’کوئی تعلق نہیں‘ اور ’میری طرف سے فارغ ہے‘ سے طلاقِ بائن واقع ہوئی۔ دورانِ عدت یا عدت کے بعد بھی اگر میاں بیوی میں صلح ہو جاتی ہے تو نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کے سامنے دوبارہ نکاح کر کے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس نئے نکاح کے بعد شوہر کے پاس طلاق کا صرف ایک حق باقی رہ جائے گا، یعنی آئندہ اُس نے کسی بھی صرح یا کنایہ لفظ سے طلاق دی تو طلاقِ مغلظہ واقع ہو جائے گی اور وہ دونوں ایک دوسرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائیں گے۔

2۔ اگر کسی لڑائی جھگڑے کے دوران یا طلاق کا مذکورہ نوٹس لکھوانے سے پہلے شوہر نے کبھی بھی صریح لفظ ’طلاق‘ بول کر طلاق دی تھی اور بعد میں میاں بیوی کی صلح ہوگئی تھی تو اب نوٹس اور کنایہ کے جملوں کے ساتھ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، ان کا رجوع جائز نہیں ہے۔

3۔ اگر کسی لڑائی جھگڑے کے دوران یا طلاق کا مذکورہ نوٹس لکھوانے سے پہلے شوہر نے کبھی بھی کنایہ کے الفاظ جیسے ’میری طرف سے فارغ ہے‘ ’تیرا میرا کوئی تعلق نہیں‘ ’میری طرف سے آزاد ہے‘ وغیرہ بول کر طلاق دی تھی تو صرف یہی طلاق مؤثر ہوگی، ان الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوئی اور نکاح ختم ہوگیا، پھر بعد میں دیا گیا نوٹس یا دیگر طلاق بالکل غیر مؤثر ہوگئیں کیونکہ جب پہلے الفاظ بولنے سے نکاح ہی ختم ہوگیا تو طلاق کیسی؟ اس صورت میں رجوع کیلئے تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اس صورت میں ہونے والے تجدیدِ نکاح کے بعد شوہر کے پاس طلاق کے دو حق باقی ہوں گے۔

نوٹ: تجدیدِ نکاح کیلئے شوہر اور بیوی کی رضامندی ضروری ہے، زور زبردستی سے کیا گیا تجدیدِ نکاح درست نہیں ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری