جواب:
حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ.
قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
اس حدیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیک و صالح لوگوں کی قبریں یقیناً جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہیں اور جنت کے باغ بلاشبہ مقدس و متبرک ہیں۔ ذیل میں مقاماتِ مقدسہ کو بوسہ دینے کی شرعی حیثیت واضح کی جارہی ہے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا:
إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ.
میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا۔
بخاري، الصحيح، كتاب الحج، باب ما ذكر في الحجر الأسود، 2: 579، رقم: 1520، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة
امام بدر الدین عینی، اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَأما تَقْبِيل الْأَمَاكِن الشَّرِيفَة على قصد التَّبَرُّك، وَكَذَلِكَ تَقْبِيل أَيدي الصَّالِحين وأرجلهم فَهُوَ حسن مَحْمُود بِاعْتِبَار الْقَصْد وَالنِّيَّة، وَقد سَأَلَ أَبُو هُرَيْرَة الْحسن، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَن يكْشف لَهُ الْمَكَان الَّذِي قبله، رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَهُوَ سرته، فَقبله تبركا بآثاره وَذريته، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقد كَانَ ثَابت الْبنانِيّ لَا يدع يَد أنس، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، حَتَّى يقبلهَا، وَيَقُول: يَد مست يَد رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقَالَ أَيْضا: وَأَخْبرنِي الْحَافِظ أَبُو سعيد ابْن العلائي قَالَ: رَأَيْت فِي كَلَام أَحْمد بن حَنْبَل فِي جُزْء قديم عَلَيْهِ خطّ ابْن نَاصِر وَغَيره من الْحفاظ، أَن الإِمَام أَحْمد سُئِلَ عَن تَقْبِيل قبر النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وتقبيل منبره، فَقَالَ: لَا بَأْس بذلك، قَالَ: فأريناه للشَّيْخ تَقِيّ الدّين بن تَيْمِية فَصَارَ يتعجب من ذَلِك، وَيَقُول: عجبت أَحْمد عِنْدِي جليل يَقُوله؟ هَذَا كَلَامه أَو معنى كَلَامه؟ وَقَالَ: وَأي عجب فِي ذَلِك وَقد روينَا عَن الإِمَام أَحْمد أَنه غسل قَمِيصًا للشَّافِعِيّ وَشرب المَاء الَّذِي غسله بِهِ، وَإِذا كَانَ هَذَا تَعْظِيمه لأهل الْعلم فَكيف بمقادير الصَّحَابَة؟ وَكَيف بآثار الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام؟ وَلَقَد أحسن مَجْنُون ليلى حَيْثُ يَقُول:
أَمر على الديار ديار ليلى
أقبل ذَا الْجِدَار وَذَا الْجِدَار
وَمَا حب الدَّار شغفن قلبِي
وَلَكِن حبُّ من سكن الديارا
وَقَالَ الْمُحب الطَّبَرِيّ: وَيُمكن أَن يستنبط من تَقْبِيل الْحجر واستلام الْأَركان جَوَاز تَقْبِيل مَا فِي تقبيله تَعْظِيم الله تَعَالَى، فَإِنَّهُ إِن لم يرد فِيهِ خبر بالندب لم يرد بِالْكَرَاهَةِ.
حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے۔ میرے نزدیک تو امام احمد کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا:
جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں
کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو
مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا
بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے
علامہ محب طبری نے فرمایا: یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں۔
علامہ عینی کہتے ہیں: میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ۔
عيني، عمدة القاري، 9: 241، بيروت: دار إحياء التراث العربي
اس لیے آپ کا اپنی والدہ کی قبر کو چومنا جائز ہے۔ والدین کی محبت و شفقت کا یہی تقاضا ہے کہ ان کی زندگی میں بھی ان کا ادب و احترام کریں اور بڑھاپے میں خوب خدمت کی جائے اور جب وفات پا جائیں تو ان کے لیے ایصالِ ثواب کیا جائے۔ ان کی قبر پر حاضری دیکر خوب ادب و احترام کیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔