جواب:
اگر آپ نے واقعی ’طلاق دے دوں گا‘ کے الفاظ بولے ہیں تو ان سے طلاق نہیں ہوئی، البتہ آپ کے ان الفاظ نے اس رشتے کی محبت، مؤدت اور عزت کو پامال کر دیا۔ ان الفاظ سے آپ نے نفرت کا جو زہر گھولا اس کا تریاق شائد ممکن نہ ہو‘ آپ نے دھمکی دینے کی کوشش کی مگر اس دھمکی نے ایسی نفرت پیدا کی کہ اب آپ کی بیوی آپ سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ نکاح کا بندھن بہت نازک ہوتا ہے، اس کی تعمیر محبت اور عزت کے جذبات پر ہوتی ہے‘ دھونس اور دھمکیوں سے یہ رشتہ پختہ نہیں کمزور ہوتا ہے۔
بہرحال آپ کے الفاظ سے طلاق نہیں ہوئی، جب تک بیوی کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہ کرے اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ آپ کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی اور آپ طلاق بھی نہیں دیتے تو اسے حق ہے کہ معاملہ عدالت کے سامنے پیش کر کے خلع یا تنسیخِ نکاح کا مطالبہ کر دے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔