جواب:
طلاق کے لیے دو طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایک صریح الفاظ اور دوسرے کنایہ الفاظ ہیں۔ کنایہ کے الفاظ سے دی جانے والی طلاق سے مراد ایسی طلاق جو ان الفاظ استعمال کرتے ہوئے دی جائے جن سے طلاق کا معنیٰ بھی سمجھا جاسکتا ہے اور کوئی دوسرا معنیٰ بھی مراد لیا جاسکتا ہے جیسے: تم اپنے گھر چلی جاؤ، اب اِس گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں، تم مجھ سے الگ ہو جاؤ، تم فارغ ہو وغیرہ۔ اس دوسری قسم کی طلاق کے واقع ہونے کے لیے شوہر سے اس کی نیت پوچھی جائے گی اور دلالت حال سے مدد لی جائے گی۔ بسا اوقات ماحول گفتگو کا انداز نیت کے قائم مقام ہوتا ہے۔
مسئلہ مسؤلہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ لڑائی کے دوران شوہر نے کہا: ’آپ کی بیٹی جھوٹی ہے، میری طرف سے فارغ ہے، اسے آ کر لے جائیں۔‘ معمولی عقل رکھنے والے آدمی کو بھی اس جملے کے معنیٰ متعین کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ الفاظ اور حالات خود بتا رہے ہیں کہ ’میری طرف سے فارغ ہے‘ طلاق کے لیے بولا جا رہا ہے۔ شوہر کی نیت کا اعتبار تب کیا جاتا جب اس نے مبہم الفاظ بولے ہوتے اور حالات سے معنیٰ معین کرنا دشوار ہوتا، جبکہ یہاں صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس لیے شوہر کے الفاظ ’یہ میری طرف سے فارغ ہے، اسے آ کر لے جائیں‘ یا ’تم میری طرف سے فارغ ہو‘ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے اور نکاح ختم ہوگیا ہے۔ اب اگر اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو (عدت کے دوران اور عدت کے بعد بھی) دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔ دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو بار طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کنایہ کے الفاظ سے دی ہوئی طلاق کب واقع ہوتی ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔