جواب:
کسی بھی قانون کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں حالات واقعات کے پیش نظر کچھ مستثنیات (Exceptions) ہوتی ہیں جن کی بناء پر مخصوص حالات میں قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اسی طرح شریعتِ اسلامیہ میں بھی شرعی اعذار (Excuses) کی بنیاد پر حکمِ شرعی اٹھا لیا جاتا ہے۔ جیسے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے سود، خنزیر کا گوشت، مردار اور خون وغیرہ کو قطعی حرام قرار دیا اور ساتھ ہی جان بچانے کی خاطر کھا لینے کی رخصت بھی عنایت فرمائی وضاحت میں چند آیاتِ قرآنی درج ذیل ہیں:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَيْهِ ط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
البقرة، 2: 173
اسی طرح دیگر مقامات پر بھی حرام اشیاء کے نام بتا کر ساتھ ہی یہ قاعدہ بیان کر دیا۔
فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ لا فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
المائدة، 5: 3
وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْکُمْ اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ط
حالانکہ اس نے تمہارے لیے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سوائے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔
الأنعام، 6: 119
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بے شک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
الأنعام، 6: 145
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
النحل، : 16: 115
عکل یا عرینہ سے آئے ہوئے کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تو بیمار ہو گئے، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے علاج کے لئے اونٹوں کا بول تجویز کیا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ نَاسًا اجْتَوَوْا فِي الْمَدِينَةِ فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ يَعْنِي الْإِبِلَ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّی صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَسَاقُوا الْإِبِلَ فَبَلَغَ النَّبِيَّ فَبَعَثَ فِي طَلَبِهِمْ فَجِيئَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ.
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگوں کو مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ اس چرواہے کے پاس چلے جائیں جو آپ نے اونٹوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اور وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینا تو وہ اس چرواہے سے جاملے پھر اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک کہ ان کے بدن درست ہوگئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو ان کی تلاش میں آدمی بھیجے گئے۔ جو انہیں لے کر آگئے۔ لہٰذا ان کے ہاتھ پیر کٹوا دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی گئی۔
مردوں پر سونا حرام ہے لیکن حالت مجبوری میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ رضی الله عنه أَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ بْنَ أَسْعَدَ قُطِعَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْکُلَابِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.
حضرت عبدالرحمن بن طرفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا جان حضرت عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک کلاب کے روز کاٹ دی گئی۔ تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوا لی تو اس سے بدبو آنے لگی۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے سونے کی ناک لگوا لی۔
اسی طرح بیماری کی وجہ سے مردوں کو ریشم پہننے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔
عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم رَخَّصَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ فِي قَمِيصٍ مِنْ حَرِيرٍ مِنْ حِکَّةٍ کَانَتْ بِهِمَا.
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو ریشمی قمیص پہننے کی اجازت مرحمت فرما دی تھی کیونکہ ان دونوں حضرات کے جسم پر خارش تھی۔
فقہاء کرام نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے:
الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ
ضرورتیں ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں۔‘‘
فقہاء کرام فرماتے ہیں:
يَجُوزُ لِلْعَلِيلِ شُرْبُ الدَّمِ وَالْبَوْلِ وَأَكْلُ الْمَيْتَةِ لِلتَّدَاوِي إذَا أخبره طَبِيبٌ مُسْلِمٌ أَنَّ شِفَاءَهُ فيه ولم يَجِدْ من الْمُبَاحِ ما يَقُومُ مَقَامَهُ.
اگر ایک مسلمان ڈاکٹر کی رائے میں خون، پیشاب اور مردار کو کھانے سے کسی مریض کو شفاء مل سکتی ہو اور ان کے متبادل کوئی حلال چیز (بطور دواء) بھی نہ ہو تو ان چیزوں کا کھانا جائز ہے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب کسی حلال شے سے علاج ممکن نہ ہو تو مستند ڈاکٹر کے مشورہ سے ایسی ادویات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں جن میں حرام اشیاء ملی ہوئی ہوں۔ لہٰذا کوالیفائیڈ ڈاکٹر یا مستند حکیم کی تجویز سے افیون، الکوحل یا دیگر نشہ آور اشیاء حالت مجبوری میں بطور دواء استعمال کرنا جائز ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔