جواب:
بصورت مسئلہ اگر لڑائی کی وجہ سے آپ غصے میں تھے اور غصے کی بھی ایسی کیفیت آپ پر طاری تھی جس میں انسان کا خود پر کنڑول نہیں رہتا تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ غصے کی طلاق کے بارے تفصیلی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: غصّے کی کون سی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی؟
اس کے برعکس اگر کیفیت نارمل تھی اور بیوی نے آپ کی خاموشی کی وجہ سے بطور بیوی کے آپ سے پوچھا کہ ’کیا میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے؟‘ اس نے تین بار یہی سوال آپ کے میاں بیوی والے تعلق کو ہی ذہن میں رکھ کر کیا اور آپ نے تینوں بار اس کا جواب نفی میں دیا۔ پہلی بار پوچھنے پر جب آپ نے نفی میں جواب دیا تو آپ لوگوں کا نکاح ختم ہو گیا کیونکہ الفاظ کنایہ سے طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے جس سے نکاح فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ جب طلاق بائن واقع ہو گئی اور نکاح ختم ہو چکا تو اس کے بعد دی جانے والی طلاقیں لغو (فضول) ہیں۔
الفاظِ کنایہ کے ساتھ دی گئی طلاق کے واقع ہونے کی دو صورتیں ہیں:
ان دونوں صورتوں میں نکاح فوراًختم ہوجاتا ہے، اور رجوع کے لیے تجدید نکاح ضروری ہوتاہے۔ اپنے سوال میں آپ نے بتایا کہ دورانِ سوال و جواب آپ کی طلاق کی نیت نہیں تھی، تاہم قرینہ(دلالتِ حال)سے طلاق کے علاوہ کوئی اور مراد لینا ممکن نہیں اس لیے طلاقِ بائن واقع ہوچکی۔ الفاظِ کنایہ سے طلاق کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کنایہ کے کن الفاط سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔