جواب:
فقہائے کرام فرماتے ہیں دو صورتوں میں الفاظ کنایات سے طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔اولاً جب نیت ہو ثانیاً جب قرینہ پایا جائے:
الکنایات لا یقع الطلاق اِلا بالنیة أو بدلالة الحال۔
کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی
۔۔برهان الدین علی المرغینانی،المتوفی 593ہ،الهدایه شرح البدایه،1: 241، المکتبة الاسلامیة
الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند،الفتاوی الهندیة،1: 374،دار الفکر،سن اشاعت 1411ه
أن الصریح وإن کان بائنا یلحق البائن ومن أن المراد بالبائن الذي لایلحق هو ماکان کنایة۔
طلاق صریح اگرچہ بائن ہو بائن سے ملحق ہو سکتی ہے اور جس بائن سے بائن ملحق نہیں ہو سکتی وہ کنایہ ہے۔
جیسے کہے انْتِ وَاحِدَة ’’تو اکیلی ہے‘‘ گو اس میں لفظ طلاق نہیں ، مگر ’’وَاحِدَة‘‘ طلاق کی صفت ہے۔ یعنی تجھے ایک طلاق۔ لہٰذا یہ اصل میں کنایہ نہیں ، جس سے عورت بالکل حرام ہو جاتی ہے اور محلِ طلاق نہیں رہتی ، بلکہ دراصل یہ صریح رجعی ہے۔ اس لیے اس کے بعد دوسری رجعی عدت کے اندر ہو سکتی ہے۔
المراد بالبائن الذي لایلحق هو ما کان بلفظ الکنایة۔
وہ بائن جس سے دوسری طلا ق نہیں مل سکتی وہ ہے جو الفاظ کنایہ سے دی جائے۔
مزید بیان کیا:
إذا طلقہا تطلیقة بائنة ثم قال لھا عدتہا أنت عليّ حرام أو خلیة أو بریة أو بائن أو بتة أو شبہ ذالک وهو یرید به الطلاق لم یقع علیها شئ۔
جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔
إن کان الطلاق رجعیاً یلحقہا الکنایات لأن ملک النکاح باق فتقییدہ بالرجعي دلیل علی أن الصریح البائن لایلحقه الکنایات۔
اگر طلاق رجعی ہے تو اس سے کنایات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ ملک نکاح باقی ہے۔ سو رجعی کی قید دلیل ہے۔اس امر کی کہ صریح بائن کے بعد کلمات کنایہ کچھ عمل نہیں کر سکتے۔
امام زیلعی شارع ہدایہ فرماتے ہیں طلاق بائن کا صریح کے بعد واقع ہونا تو ظاہر ہے کہ قید حکمی ہر حال میں باقی ہے ’’لبقاء الاستمتاع‘‘ کہ اس مطلقہ سے قربت جائز ہے۔ یہ حقیقت مخفی نہ رہے کہ قید نکاح پر ہر پہلو سے اور قربت وخلوت صریح طلاق بائن کے بعد جائز نہیں ہوتی
ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 3: 308، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔