کیا طلاقِ صریح میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا؟


سوال نمبر:3410
میرے شوہر چار سال سے بیرونِ ملک ہیں، اور انہوں نے وہاں شادی بھی کرلی ہے۔ جب میں‌ نے ان سے اس بارے میں بات کی تو انہوں‌ نے جھگڑ کر مجھے پیغام ( ٹیکسٹ میسیج) دیا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ دورانِ عدت انہوں نے کہا ہے کہ میرا طلاق کا ارادہ نہیں تھا، تم میری ابھی بھی بیوی ہو۔ بتائیں کہ کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟

  • سائل: ساریہ زاہدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 17 دسمبر 2014ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق صریح

جواب:

صریح الفاظ کے ساتھ دی گئی طلاق میں نیت و ارادہ کی ضرورت نہیں ہوتی، بغیر نیت کے بھی طلاق واقع جاتی ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ کہہ دے تو ’’طلاق‘‘ کہنے میں اس کی نیت کا کوئی اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ لفظِ طلاق زوجین کے درمیان جدائی کیلئے استعمال کیا جانے والا واضح اور صریح لفظ ہے۔ لہذا اس لفظ کو شوہر طلاق کی نیت کے بغیر بھی زبان سے ادا کردے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔

عن ابی هريرة ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والرجعة۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین (3) چیزیں ہیں جن کو سنجیدگی سے ادا کیا جائے یا مذاق و دل لگی میں، وہ واقع ہو جاتی ہیں۔ (1)نکاح (2)طلاق (3)رجوع۔

ابوداؤد، السنن، 1: 298، رقم حدیث: 1875

اگر آپ کے شوہر نے طلاق کا لفظ صریح انداز میں بولا ہے، تو طلاقِ مغلظہ واقع ہو گئی ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے کہ دورانِ جھگڑا اس طرح کی بات ہوئی ہے، تو پھر طلاق کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کے لیے اس جھگڑے اور غصے کی کیفیت کا علم ہونا ضروری ہے۔ غصے کی طلاق سے متعلق وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

غصے کی طلاق کا کیا حکم ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری