کیا آذان لاؤڈ سپیکر میں دینا ضروری ہے؟


سوال نمبر:2609
السلام علیکم السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میں‌ اس جگہ رہتا ہوں جہاں نوے فیصد آبادی غیر مسلم ہے۔ ہماری عمارت کے بالکل مخالف مسجد ہے۔ میرے غیر مسلم پڑوسی بلند آواز میں‌ آذان کی وجہ سے بہت پریشان ہیں خاص طور پر فجر کے وقت۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کیا قرآن وحدیث میں‌ کہیں‌ بلند آواز سے آذان کہنے کے بارے میں لکھا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ کیا آذان کم آواز میں‌ نہیں‌ دی جا سکتی ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاؤڈ سپیکر سے ان کو بہت پریشانی ہوتی ہے وہ شریعت کے مطابق اس کا جواب چاہتے ہیں۔

  • سائل: محمد ظفر شیخمقام: مہاراشٹرا، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 23 مئی 2013ء

زمرہ: اذان

جواب:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک میں اور بعد میں بھی تقریبا پچھلی صدی عیسوی تک لاؤڈ سپیکر نہیں تھے۔ اس لیے اس دور میں ہوتے تو ضرور استعمال کیے جاتے۔ کیونکہ آذان اس لیے دی جاتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے نمازی جمع ہو جائیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک میں آذان مسجد کے ساتھ مینارے یا چبوترے پر کھڑے ہو کر دی جاتی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دور دور تک آذان سنائی جا سکے۔ آج کل یہی مقصد لاؤڈ سپیکرز کے ذریعےحاصل کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنادرست نہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک میں لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں کیے جاتے تھے، آج بھی ہم نہ کریں۔ اگر اسی کو دلیل بنایا جائے پھر تو بہت سی چیزیں ہیں جو اس دور میں استعمال نہیں ہوتی تھیں جو آج ہم استعمال کر رہے ہیں مثلا گاڑیاں، جہاز، گن، ٹینک، کمپیوٹر، موبائل فون وغیرہ سب اس دور میں نہیں تھے لیکن آج ان کا استعمال جائز ہے۔

ہاں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے لوگوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ آواز کم سے کم رکھی جائے تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور لوگ بھی Disturb نہ ہوں۔ مقصد تو یہ ہے کہ اس مسجد کے علاقے (Area) میں جتنے بھی مسلمان ہیں ان تک آذان کی آواز پہنچ جائے، یہ ضروری نہیں کہ پورے کے پورے شہر میں اسی مسجد کی آذان کی آواز پہنچائی جائے۔ اس مسئلہ کا حل اہل محلہ کو اکھٹے کر کے کیا جائے ان کو ساری صورت حال بھی بتا دی جائے، اگر قانون کے مطابق مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکر پر آذان دینے کی اجازت ہے تو مناسب آواز میں آذان دی جائے، اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو بغیر سپیکر کے بھی آذان دے سکتے ہیں، لیکن فتنہ فساد نہیں ہونا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی