جواب:
مزارات پر گنبد وغیرہ بنانا جائز ہے، ناجائز نہیں ہے، اس کے جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن وحدیث سے منع نہیں کیا گیا۔ قرآن میں مزارات پر گنبد وغیرہ کی تعمیر کرنا، نہ اس کا ذکر ہے اور نہ ممانعت، البتہ حدیث پاک میں قبر پختہ کرنے کی ممانعت ہے۔ اگر اس سے مراد قبر کو بلا ضرورت اندر سے پختہ کرنا ہے، اوپر باہر سے پختہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے، اسی طرح اولیاء کرام کی قبروں پر گنبد تعمیر کرنے کی ممانعت بھی نہیں ہے۔
مطالب المؤمنین میں لکھا ہے کہ سلف نے مشہور علماء ومشائخ کی قبروں پر عمارت بنانا مباح رکھا تاکہ لوگ زیارت کریں اور اس میں بیٹھ کر آرام کر لیں لیکن اگر زینت کے لئے بنائیں تو حرام ہے، مدینہ منورہ میں صحابہ کی قبروں پر اگلے زمانے میں قبے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ظاہر یہ ہے کہ اس وقت جائز قرار دینے سے ہی یہ جائز ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد انور پر بھی ایک قبہ ہے۔
فتاوی رضويه جلد : 9، صفحه : 418
مدارج النبوة
اولیاء کرام کی قبروں پر مزارات تعمیر کرنا، گنبد بنانا مباح عمل ہے، یہ علماء، مشائخ اولیاء، صلحاء، وشہداء جو اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان کی عظمت، رفعت، علم اور ولایت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی شان وشوکت اور دنیا کے اندر رہ کر دنیا سے ترک تعلق کرنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مستحب عمل ہے اس میں حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی تزئین، آرائش وزیبائش کے لئے بنانا ہے تو یہ نا جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔