ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:1164

قبل ازیں بعض لوگ ٹیلی فون پر نکاح کرواتے رہے ہیں لیکن آج کل انٹرنیٹ جیسا جدید ذریعہ ابلاغ بھی اس مقصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے‘ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب سے نوازیں۔

  • سائل: مقصود الرحمٰنمقام: سپین
  • تاریخ اشاعت: 13 اگست 2011ء

زمرہ: نکاح

جواب:

آپ کا سوال بڑا اہم ہے اور اس کا تعلق عصر حاضر کے جدید ترین مسائل کے ساتھ ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر شادیوں کی خبریں آئے روز اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں‘ اسلامی ممالک کے علماء و مفتیانِ کرام کا نقطہ نظر بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ بعض لوگ جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں۔ اصل مسئلہ نکاح کی شرائط کا ہے وہ پوری ہو رہی ہوں تو نکاح جائز ہوتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد شرطیں پوری نہ ہو سکیں تو نکاح بھی منعقد نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم ذیل میں پہلے نکاح کا صحیح طریقہ درج کر رہے ہیں‘ بعض ازاں سوال کی بقیہ جزئیات کو زیرِ بحث لا یا جائے گا۔

نکاح کا شرعی طریقہ :

نکاح کا شرعاً بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ کم سے کم دو عاقل و بالغ مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا کر حق مہر کے عوض مرد و عورت کے درمیان ایجاب و قبول کروایا جائے اورخطبۂ مسنونہ پڑھا جائے۔ نکاح کے موقعہ پر فریقین ہی نہیں‘ دیگر اعزاء و اقارب بھی حاضر ہوں۔ نکاح مساجد میں پڑھے جائیں اور نکاح و شادی کے موقعہ پر دف‘ ڈھول وغیرہ بجایا جائے اور شادی و خوشی کے گیت گائے جائیں۔ خاوند کی طرف سے حسبِ توفیق ولیمہ کی دعوت کا اہتمام ہو۔ شادی کے موقعہ پر یا اس سے قبل جب بھی نکاح پڑھا جائے‘ کھجور‘ چھوہارے وغیرہ لوٹائے جائیں۔ مگر دور جدید کی گوناگوں ترقی نے نئے وسائل کے ہمراہ نئے مسائل بھی پیدا کردیئے ہیں جن سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔

ای میل (E-mail)‘ سٹیلائٹ‘ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون وغیرہ دور جدید میں اللہ کی طرف سے انسانی معاشرے کیلئے جدید ترین تحفے ہیں۔ ان سے احتیاط کے ساتھ استفادہ کرنا ضرورت بن چکی ہے۔ ایک طرف خاندان بکھرا ہوا ہے ۔ کوئی پاکستان میں ہے تو کوئی انگلینڈ‘ امریکہ ‘ جاپان‘ فرانس اور یورپ و افریقہ و آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہے۔ زمین سکڑ رہی ہے اور فاصلے سمٹتے جا رہے ہیں۔ صبح یہاں شام کو کسی دوسرے براعظم میں۔ وقت مصروف ترین اور فرصتیں ختم ہوگئی ہیں۔ عمرِ دراز کے مانگے ہوئے چار دن تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہوسِ زر اور آسائشوں نے احساسِ مروت کو کچل دیا ہے۔ مشینوں کی حکومت ہے اور ہم اس کے آگے بے بس پرُزے، صنعت‘ زراعت‘ تجارت‘ تعلیم جدید ٹیکنالوجی نے سب میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ یوں نئے دور کے نئے تقاضوں نے بھی جنم لیا ہے اور نئے نئے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان اپنے دنوں کے کام گھنٹوں میں اور گھنٹوں کے چند منٹ میں کرنے لگا ہے۔ مختلف اقسام کے کاروبار اور ٹریڈنگ کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نہایت آسانی سے ہو رہی ہے۔

شادی کا شرعی حکم :

شادی کے بارے میں قرآن مجید نے بڑے واضح انداز میں ارشاد فرمایا :

 فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ.

(النسآ‘ 4 : 3)

تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

اصل مسئلہ :

پاکستان اور دوسرے پسماندہ علاقوں سے لوگ روزگار کمانے کیلئے یورپ‘ امریکہ اور دوسرے امیر ملکوں میں جاتے ہیں، چونکہ ان کے باقی رشتہ دار ملک میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے بچوں‘ بچیوں کی شادی کے سلسلہ میں کئی مسائل در پیش ہوتے ہیں۔ مناسب‘ رشتے ملنا‘ ایک دوسرے کو دیکھنا اور پسند کرنا‘ شرائط طے کرنا‘ حق مہر وغیرہ کا فیصلہ کرنا۔ پورے خاندان کا ایک ملک سے دوسرے ملک آنا جانا‘ سفری دستاویزات کی تیاری، NOC کا حصول‘ بھاری بھر کم کرائے وغیرہ‘ رخصت ملنا وغیرہ وغیرہ، اسی طرح کے دیگر مسائل آڑے آتے ہیں۔ اس لئے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لڑکا لڑکی اپنے اپنے گھر میں رہیں۔ شرائط طے کر لیں۔ نکاح ہو جائے پھر لڑکی یا لڑکے کا باہر جانا اور سفری دستاویزات کا حصول بلکہ ان ممالک کی نیشنلٹی شہریت کا حصول بھی آسان تر ہو جائے گا اور شادی کے کچھ عرصہ بعد فریق باہر جا سکے گا۔ اب مسئلہ ہے نکاح پڑھنے کا‘ لڑکا اِدھر لڑکی اُدھر۔ نکاح کیلئے دونوں کا موجود ہونا اور دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول وغیرہ کی شرائط کیسے پوری ہوں؟

عملی ترکیب :

(1) سب سے پہلے پاکستان سے نکاح فارم لیں اور ان کو مکمل فِل کریں۔ جو فریق ملک سے باہر ہے، اس کا نام، پتہ اور دستخط کرنے کیلئے وہ کاغذات اس کے پاس بھیجیں۔ مثلاً لڑکا باہر ہے تو دولھا‘ اس کا وکیل اور اس کے وکیل کے دو گواہ کم سے کم ان تینوں کے نام‘ مکمل پتے اور ان کے مخصوص جگہ پر دستخط کرنے کیلئے چاروں نکاح فارمز باہر بھیجیں۔ وہ اسے فِل کر کے واپس بھیج دیں گے۔ باقی فارم یہاں پُر کریں۔ لڑکے اور ان تینوں کو لڑکی کی تمام ضروری معلومات اور حق مہر کی تفصیل بتا دیں۔

(2) لڑکی یہاں ہے، اس کا نام پتہ اس کے وکیل کا نام، پتہ اور وکیل بنانے کے دو گواہوں کے نام و پتہ لکھیں اور ان سب کے دستخط کروائیں۔ پھر شادی کے دو گواہ بنا لیں ان کے نام و پتہ اور دستخط کروائیں۔

(3) جب اِدھر اُدھر کے دونوں فریقوں کو تمام حقیقت معلوم ہوگئی تو ٹیلی فون سیٹ نکاح خوان کے سامنے رکھیں۔ تمام متعلقہ لوگ جن کے نام فارم پر لکھے ہیں۔ اِدھر کے بھی اور اُدھر کے بھی ایک جگہ بیٹھ جائیں۔ اِدھر کے یہاں اور اُدھر کے وہاں۔ اب نکاح خوان فارم ہاتھ میں لے اور ٹیلی فون یا انٹرنیٹ کی صورت میں مائیک پر لڑکے کا نام اسی سے پوچھے۔ والد کا نام اور یہ بھی معلوم کرے کہ کیا اس کا آج نکاح ہو رہا ہے؟  کس لڑکی سے ہے اور وہ کس جگہ سے ہے؟ لڑکی کے والد کانام‘ حق مہر‘ کوئی اور شرائط ہو تو نکاح خواں وہ بھی اس سے پوچھے۔ سپیکر آن ہونے چاہیے تاکہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں۔

(4) جب لڑکا یہ تمام باتیں کر لے اور نکاح کی اجازت بھی دے دے تو اس سے کہا جائے کہ اس کا یہاں وکیل کون ہے۔ اس کا والد کون ہے وغیرہ۔ اب لڑکی سے اجازت لے کر اس لڑکی کا اس لڑکے سے نکاح کریں۔ ٹیلیفون پر لڑکے سے اس کے گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کروائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکے کا جو وکیل آپ کے پاس موجود ہے اُس سے بھی نکاح کا ایجاب و قبول کروایا جائے۔ یعنی لڑکے کا وکیل کہے کہ میں نے فلاں لڑکی اتنے حق مہر کے عوض ان شرائط کے تحت ان گواہوں کے روبرو اپنے فلاں موکل کے نکاح کیلئے قبول کی۔ اگر ٹیلیفون پر پورا بندوبست ہو۔ فریقین ایک دوسرے کو پہچان لیں‘ نکاح ہو جائے گا۔ اس نکاح میں تین پہلو نمایاں ہونگے۔

(i) چونکہ دونوں نے اپنا اپنا وکیل بنایا ہوا ہے‘ اور نکاح فارم میں ہر ایک کا وکیل اور اس کے دستخط موجود ہیں۔ وکیل بنانے کے دوگواہ اور ان کے دستخط بھی موجود ہیں، لہٰذا یہ نکاح وکالتاً صحیح ہوا۔

(ii) ٹیلی فون پر جب نکاح فارموں کے مطابق فام ولدیت، پتہ اور دوسرے فریق سے ان کا تعلق، ہونے والے نکاح کے بارے میں اجازت و رضا مندی‘ شرائطِ مکتوبہ کی تائید و توثیق وغیرہ صراحتاً موجود ہے اور دوسری طرف سے پوری احتیاط کے ساتھ تمام مراحل طے کرا لئے گئے اور گواہوں کی موجودگی میں یہ نکاح پڑھا گیا تو نکاح درست رہا۔

(iii) بالفرض ٹیلی فون پر گفتگو میں کوئی غلط بیانی ہوگئی تو ایسا امکان لڑکے‘ لڑکی کی موجودگی میں بھی ممکن ہے۔ مثلاً یہاں ہم آئے دن نکاح پڑھتے ہیں۔ نکاح خوان کو کیا معلوم کہ یہی لڑکی ہے، یہی لڑکا ہے اور یہی ان کی پہلی شادی ہے وغیرہ۔ محض اعتماد و اعتبار کی بات ہے۔ ملک اور بیرونِ ملک میں جب ٹیلی فون پر شادی ہوگی تو اس میں بھی خطا و غلطی کا امکان رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے یہاں‘ محض غلطی کے اتنے سے امکان سے فرق نہیں پڑتا۔ آخر ٹیلیفون پر کاروبار‘ لین دین‘ ٹھیکے‘ در آمد و برآمد‘ موت و حیات کے بہت سے دوسرے امور بھی انجام پاتے ہیں۔ غلطی کا امکان ان میں زیادہ ہے کیونکہ نکاح کے سلسلہ میں ہم نے جتنی بھی احتیاط برتی دوسرے معاملات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جب اس کے باوجود دوسرے معاملات میں ٹیلی فون وغیرہ سے استفادہ کرتے ہیں تو نکاح و شادی کے معاملات بھی اس احتیاط کے ساتھ کر لئے جائیں تو شرعاً جائز ہے۔

غلطی کا امکان :

جس طرح آج کل نکاح پڑھا جاتا ہے۔ اس میں بھی غور کریں تو غلطی یا غلط بیانی اور فراڈ کا امکان موجود ہے اور بڑی آسانی سے فراڈ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً نکاح خوان کو لڑکی، لڑکے کے نام، ولدیت‘ گواہوں کے نام، پتے‘ دولہا، دلہن کی عمریں بتائی اور لکھوائی جاتی ہیں۔ اگر اہلِ خانہ چاہیں تو کس کس جگہ فراڈ نہیں کر سکتے؟ لڑکی کونسی ہے؟ نکاح خوان نہیں جانتا‘ اس نے بلا جبر نکاح کی اجازت دی ہے یا گن پوائنٹ پر اسے اس کی بھی خبر نہیں؟ یہ گھر کے محض لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ نکاح پڑھنے والے کو کچھ معلوم نہیں۔ وہ تو ہر بات میں اہلِ خانہ پر اعتماد کر کے قدم اٹھاتا ہے۔ یہاں بھی ممکن ہے شکل کسی اور لڑکی کی دکھائی اور بیاہ کر کوئی دوسری دیدی۔ نکاح خوان ان حقائق سے بے خبر ہے۔ یہ اور ایسی دوسری باتیں نکاح پڑھنے والا نہیں جانتا۔ محض اہل خانہ پر اعتبار و اعتماد کرتا ہے اور یہ اس کی مجبوری بھی ہے۔ بایں ہمہ ہر روز ہی تقریباً کوئی نہ کوئی نکاح آتا رہتا ہے اور نکاح خوان محض اہل خانہ پر اعتماد کر کے جملہ کوائف تحریر کرتا ہے اور نکاح پڑھاتا ہے۔ غلطی اور فراڈ کا امکان بھی ہوتا ہے ۔ تاہم جہاں تک انسان کے بس میں ہے احتیاط لازمی ہے۔ باقی سپردِ خدا۔ یونہی مذکورہ بالا طریق پراحتیاط کے ساتھ فارم فِل کئے جائیں۔ فریقین میں سے جو حاضر ہے‘ اس کو اس کے والدین اور دیگر اعزاء کے ساتھ اس تقریب میں مدعو کریں۔

یونہی جن جن کا نام کسی بھی حیثیت سے نکاح فارم پر لکھا ہوا ہے، ان میں سے وہ لوگ جو اس ملک اور اس شہر میں رہتے ہیں‘ ان کو مجلسِ نکاح میں حاضر رکھیں۔ اب نکاح خوان سے بیرونِ ملک متعلقہ لوگوں کا رابطہ کروائیں۔ یہ صاحب نکاح فارم ہاتھ میں پکڑیں اور وہاں پر موجود فریق لڑکا یا لڑکی جو بھی ہے اس کانام‘ ولدیت‘ پتہ اُسی سے دریافت کریں۔ وہ بتاتا جائے گا آپ فارم پر چیک کرتے جائیں۔ پھر وہاں کے دوسرے لوگ جن کے نکاح فارم پر دستخط ہیں‘ ان سب سے ان کا نام پتہ دریافت کریں اور فارم چیک کرتے جائیں۔ دیگر شرائط بھی ان سے پوچھیں۔ لڑکے اور لڑکی سے جو بھی باہر ہے اس کا نام، پتہ معلوم کریں اور نکاح سے متعلق معلومات اس سے پوچھیں۔ اس طرح تمام متعلقہ امور کی واضح معلومات حاصل ہو جائیں گی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ نکاح خوان دو طرح سے ایجاب و قبول کرے :

(1) جہاں نکاح خوان موجود ہے وہاں لڑکا ہے یا لڑکی اُس سے اجازت اور شرائط وغیرہ بالمشافہ طے کرے اور دوسرے فریق سے بذریعہ ٹیلیفون پر مسئلہ طے کرے۔ ہر اس آدمی سے ٹیلیفون پر رابطہ کرے جس کا فارم کے اوپر نام درج ہے اور اس کی قانونی حیثیت کی اُس فارم پر وضاحت کرے۔ اب اس محفل میں ایک فریق اصالۃً موجود ہے، دوسرے فریق سے ٹیلیفون پر رابطہ ہے۔ یوں ایجاب و قبول آسانی سے کر سکتا ہے۔

(2) نکاح پڑھنے کا دوسرا طریقہ بھی استعمال کرے‘ اس طرح کہ جو فریق حاضر ہے وہ تو اصالۃً ایجاب و قبول کرے گا۔ مگر جو فریق بیرون ملک ہے، اس کا وہ وکیل جس کا نام نکاح فارم پر لکھا ہے، وہ یہاں موجود ہے۔ نکاح خوان اُن گواہوں کے رُوبرو جن کا نام بطور وکیل کے تقرر کے گواہان فارم پر موجود ہے، اس وکیل سے یوں کہے ’’ کہ فلاں لڑکا‘ لڑکی ولد فلاں‘ بنت فلاں کا نکاح اتنے حق مہر معجل‘ موجل یا عند الطلب کے بدلے ان مسلمان گواہوں کے رو برُو کرتا ہوں‘ تمہیں اپنے موکل کے نکاح کیلئے یہ لڑکی ان شرائط کے ساتھ قبول ہے، وہ کہے ہاں قبول ہے۔ تین بار (احتیاطاً) یہ ایجاب و قبول کیا جائے‘ یہ نکاح شرعاً ہو جائے گا۔ بالفرض اتنی احتیاطوں کے باوجود کوئی ابہام یا غلطی ہوگئی تو اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اتنی احتیاط کے باوجود اگر ثابت ہو جائے کہ ٹیلیفون پر متعلقہ لڑکے‘ لڑکی کا ایجاب و قبول نہیں ہوا، دھوکہ سے کسی اور سے کروایا گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ دار و مدار صرف ٹیلیفون پر نہیں تھا، تحریری طور پر مقررہ وکیل اور گواہان موجود ہیں۔ ان کے وکالتاً نکاح کرنے سے نکاح ہوگیا۔

بالفرض یہاں کوئی خرابی نکل آئے تو رخصتی کے بعد قربت سے پہلے نکاح ہو سکتا ہے‘ گویا یہ ممکنہ غلطیاں ہو بھی جائیں تو ان کا ازالہ ممکن ہے۔

نکاح فضولی :

بالفرض دو شخص دو گواہوں کے سامنے کسی غیر حاضر مرد اور غیر حاضر عورت کے بن بنائے وکیل بن جائیں اور حق مہر بھی خود متعین کریں اور ایجاب و قبول بھی کر لیں تو اسے نکاح فضولی کہا جاتا ہے اور متعلقہ لڑکے لڑکی کی اجازت پر موقوف ہے۔ جب متعلقہ لڑکے‘ لڑکی کو پتہ چلا اور انہوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کر دی تو نکاح درست ہو جائے گا اور دونوں نے یا ایک نے انکار کر دیا تو نکاح نہیں ہوگا۔ بالفرض ٹیلیفون پر کئے ہوئے نکاح میں کوئی بھول چُوک ہوگئی تو نکاح فضولی کی طرح یہ بھی مسترد کر دیا جائے گا۔

عام طور پر جو نکاح ہوتے ہیں‘ وہاں بھی تو گواہوں پر اعتبار ہی ہوتا ہے۔ بالفرض جن دو مرد و زن میں رشتہ نکاح ہو رہا ہے‘ ان میں حرمت کا کوئی سبب موجود ہے اور نکاح پڑھنے‘ گواہی دینے اور نکاح کرنے والے سے یہ حقیقت پوشیدہ رکھی گئی ہے تو ہزار احتیاط کے باوجود ایسا ممکن ہے۔ اگر ایسی غلطی کر دی گئی ہے تو لا علم لوگ تو بری الذمہ ہونگے کہ معذور ہیں اور نکاح نہ ہوگا کہ حرمت کا سبب موجود ہے۔ مثلاً وہ لڑکی اس لڑکے کی رضاعی بہن ہے اور ذمہ دار لوگوں نے اُسے یہ حقیقت بتائی نہیں تو یہ نکاح اللہ کے نزدیک نہ ہوگا۔ البتہ اس کے نتیجہ میں جو کچھ ہوگا، اس کا وبال ان لوگوں پر ہوگا جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ نکاح خوان‘ گواہان اور لڑکا‘ لڑکی بے گناہ ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی