جواب:
زندگی کا بیمہ یا انشورنس کا مطلب ہے کہ آدمی خود یا اس کی جائیداد خدانخواستہ
کسی بھی وقت کسی حادثہ سے دوچار ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کے پسماندگان مثلاً
والدین، بیوی اور بچے جو عام حالات میں اس کے زیر کفالت تھے وہ فقر و فاقہ اور
سنگین مالی، معاشی اور سماجی مشکالات کا شکار ہونگے۔ چونکہ بیمہ حکومت یا اس
کی مجاز کمپنیاں کرتی ہیں، وہ متاثرہ شخص، اشخاص یا ادارے سے بیمہ کرنے کے عوض متعین
رقم وصول کرتی ہیں جو متعین مدت کے لیے ہوتی ہے۔ اگر اس معاہدے کے دوران وہ شخص یا
چیز ہلاک ہو جائے تو کمپنی مقرر شدہ معاوضہ ادا کرتی ہے۔ اگر مقررہ مدت تک وہ شخص
یا چیز سلامت ہے تو کمپنی جمع شدہ رقم سے دوگنی یا کم و بیش اسے ادا کر دیتی ہے۔ اس
میں نہ جوا ہے اور نہ سود لہذا بیمہ جائز ہے۔
من انکر فعليه البيان بالدليل.
جو انکار کرے اس پر دلیل لازم ہے کہ وہ بھی دلیل پیش کرے۔
یہی بات اعلیٰحضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے احکام شریعت میں بیان فرمائی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔