اعمال کا دار و مدار نیتوں پر کس طرح ہے؟


سوال نمبر:834
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اعمال کا دار و مدار نیات پر ہے۔

تو کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال کی نیت بھی دیکھی جائے گی، تا کہ ہم باآسانی اس عمل کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔ جیسے مسواک کرنے سے، نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دانتوں کی صفائی ہے، جیسے اگر مسواک مل جائے تو بہتر ورنہ برش بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

کیا میری رائے درست ہے؟ اگر ہاں تو داڑھی ایک عمل ہے، اس کے پس پردہ نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے؟ بہت شکریہ

  • سائل: محمد عثمان خاںمقام: ناراڈاڈا، فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 29 مارچ 2011ء

زمرہ: حدیث اور علم حدیث

جواب:
قرآن میں جابجا فرمایا گیا ہے :

أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ

(النِّسَآء ، 4 : 59)

"اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔"

مسلمان تو اطاعت کی نیت کرتا ہے کہ یہ فلاں کام جو میں کرتا ہوں وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے یا انکی سنت ہے۔

اس میں دو چیزیں ہیں ایک امر تعبدی اور دوسرا معقول المعنی۔

امر تعبدی کا مطلب ہے جو بھی عمل کرے نیت بندگی کی ہو۔ اورمعقول المعنی کا مطلب ہے کہ اس عمل کی حکمت یا علت عندالعقل معلوم ہو۔ اب سینکڑوں مسائل ہیں جس کی علت ہمیں معلوم نہیں ہے اور سینکڑوں مسائل ہیں جس کی علت یا حکمت ہمیں معلوم ہے لیکن نیت یہ ہونی چاہیے کہ یہ حکم خدا اور حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جب نیت یہ ہوگی تو ثواب ملے گا اور اگر فقط اسکی علت اور حکمت کے پیچھے پڑجاتے اور مقصود دنیاوی مقاصد حاصل کرنا ہوں تو ثواب نہیں ملے گا۔ آقا علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نیت کرتے تھے اور یہی سنت چل رہی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان