جواب:
شریعتِ مطہرہ میں شراب کو اُمّ الخبائث قرار دے کر اس کی حرمت پر قطعی اور
صریح نصوص وارد ہوئی ہیں۔ قرآنِ کریم نے اسے ’’رِجْسٌ مِّنْ
عَمَلِ الشَّيْطَانِ‘‘ کہہ کر اس کے قریب جانے تک سے منع فرمایا ہے، اور رسولِ
اکرم ﷺ نے اس کے پینے، پلانے، بیچنے، خریدنے، اُٹھانے اور اس کی ہر قسم کی معاونت کرنے
والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس لیے جب کسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود حرام قرار
دیا ہو تو اس کا ثمن (قیمت و لین دین) بھی شرعاً حرام ہے، کیونکہ حرام اشیاء میں معاملہ
کرنا معصیت کو فروغ دینا اور معاشرے میں فساد کو عام کرنا ہے، جو نصوصِ قطعیہ کے خلاف
اور مقاصدِ شریعت کے منافی ہے۔ لہٰذا فقہاءِ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ شراب کی خرید
و فروخت باطل و حرام ہے اور اس سے حاصل ہونے والا مال ناجائز و خبیث ہے۔ غیر مسلم ممالک
میں شراب کی خرید و فروخت کا مسئلہ بھی اصولِ شریعت کے تحت اسی طرح حرام اور ناجائز
ہے جس طرح مسلم ممالک میں ہے، کیونکہ شرعِ مطہر نے خمر کی حرمت کو مطلق اور قطعی قرار
دیا ہے اور اس کے پینے کے ساتھ ساتھ اس کے بیچنے، خریدنے، اس کی تجارت کرنے اور اس
سے نفع حاصل کرنے کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ نصوصِ شرعیہ اس امر پر صریح دلالت کرتی
ہیں کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود حرام کیا ہو، اس کا معاوضہ اور اس سے متعلقہ
لین دین بھی ناجائز ہے۔ لہٰذا خواہ دارالاسلام ہو یا دارالحرب، شراب کی خرید و فروخت
اور اس کی تجارت کسی حال میں جائز نہیں، کیونکہ یہ حرام بالذات ہے اور شریعت کی نظر
میں اس کے نفع و نقصان میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ یہ خیال کرنا کہ شراب فروخت کر کے
اس کا حاصل شدہ نفع صدقہ و خیرات میں صرف کر دیا جائے اور باقی تجارت کے منافع اپنے
لیے رکھے جائیں، شرعاً باطل اور لغو ہے، کیونکہ نجس و خبیث مال سے صدقہ و خیرات بھی
عنداللہ مقبول نہیں، بلکہ اس سے گناہ ہی میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا ایسی تجارت اور اس سے
متعلقہ تمام تصرفات سختی سے ناجائز اور ممنوع ہیں۔ قرآن و سنت میں اس پر واضح دلائل
موجود ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
1. (المائدة، 5: 90)
اس آیتِ کریمہ سے یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ شراب نہ صرف پینے اور پلانے میں حرام ہے بلکہ اس کی خرید و فروخت، اس سے نفع حاصل کرنا اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا بھی ناجائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاجْتَنِبُوهُ﴾ یعنی ’اس سے مکمل اجتناب کرو‘ اور اجتناب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان شراب کے قریب بھی نہ جائے۔ پھر جب قرآن نے اسے ﴿رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ﴾ قرار دیا تو معلوم ہوا کہ اس کی تجارت بھی شیطانی عمل ہے جو فلاح و کامیابی کے منافی ہے۔ اس لیے شریعت میں شراب کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والا ہر نفع و مال ناپاک، حرام اور موجبِ لعنت ہے، لہٰذا ایمان کا تقاضا اور فلاح کا راستہ یہی ہے کہ اس سے کلیتاً اجتناب کیا جائے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى تَحْرِيمِ بَيْعِ الْخَمْرِ وَالدَّمِ.
’’تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ شراب اور خون کی بیع حرام ہے۔‘‘
2. القرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ج: 6، ص: 289، القاهرة: دار الشعب
احادیث مبارکہ میں بھی شراب کے پینے، پلانے اور اس کی تجارت کرنے کی ممانعت صراحتاً آئی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا:
حُرِّمَتِ التِّجَارَةُ فِي الخَمْرِ.
’’شراب کی تجارت حرام فرما دی گئی ہے۔‘‘
3. البخاري، الجامع الصحيح، كتاب البيوع، باب تحريم التجارة في الخمر، ج: 2، ص: 775، الرقم: 2113، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
اس حدیث مبارک سے واضح ہے کہ شراب کی خرید وفروخت حرام ہے۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتحِ مکہ کے موقع پر مکہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَيْتَةِ، وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مردار کی چربی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سے تو کشتیاں چمکائی جاتی ہیں، کھالوں کو روغن لگایا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا، هُوَ حَرَامٌ.
’’نہیں، وہ بھی حرام ہے۔‘‘
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا أَجْمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ.
’’اللہ یہودیوں پر لعنت کرے، اللہ تعالیٰ نے جب ان پر چربی کو حرام کیا تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت کھا گئے۔‘‘
4. مسلم، الجامع الصحيح، كتاب المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، ج: 3، ص: 1207، الرقم: 1581، بيروت: دار إحياء التراث العربي
اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف شراب، مردار، سور اور بتوں کو بذاتِ خود حرام قرار دیا بلکہ ان کی خرید و فروخت کو بھی ناجائز اور سخت گناہ ٹھہرایا ہے۔ اس سے یہ اصول واضح ہوا کہ جس چیز کا استعمال بذاتِ خود حرام ہے اس کا بیچنا اور اس سے مالی نفع حاصل کرنا بھی حرام ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ حرام اشیاء کی خرید و فروخت اور ان سے مالی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اور اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ، وَشَارِبَهَا، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَمُبْتَاعَهَا، وَعَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ.
’’اللہ تعالیٰ نے شراب پر لعنت فرمائی ہے، اور اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، اس کو نچوڑنے والے پر، نچڑوانے والے پر، اس کو اُٹھانے والے پر اور اس شخص پر جس کے پاس اُٹھا کر لے جائی جائے۔‘‘
5. أبو داود، السنن، كتاب الأشربة، باب العنب يعصر للخمر، ج: 3، ص: 326، الرقم: 3674، بيروت: دارلفكر
اس باب میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کے سلسلے میں دس اشخاص پر لعنت فرمائی:
عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَشَارِبَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالمَحْمُولَٱةُ إِلَيْهِ، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَآكِلَ ثَمَنِهَا، وَالمُشْتَرِي لَهَا، وَالمُشْتَرَاةُ لَهُ.
’’شراب کشید کرنے والے پر، اسے نچوڑنے والے پر، پینے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کے پاس اٹھا کر لے جائی جائے اس پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی جائے اس پر۔‘‘
6. الترمذي، السنن، كتاب البيوع، باب النهي أن يتخذ الخمر خلا، ج: 3، ص: 389، الرقم: 1295، بيروت: دار إحياء التراث العربي
یہ احادیث اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ شراب کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلق، خواہ براہِ راست ہو یا بالواسطہ، سخت گناہ اور اللہ کی لعنت کا موجب ہے اور اس حدیث سے یہ بھی واضح ہے کہ شراب کی تیاری، خرید و فروخت یا اس کے کاروبار میں شمولیت ہر پہلو سے حرام ہے۔ اور متعدد احادیث مبارکہ سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کو جب اللہ تعالیٰ حرام فرما دیتا ہے تو ان کی قیمت بھی حرام قرار دے دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَثَمَنَهَا، وَحَرَّمَ الْمَيْتَةَ وَثَمَنَهَا، وَحَرَّمَ الْخِنْزِيرَ وَثَمَنَهُ.
’’اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، مردار اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، اور خنزیر اور اس کی قیمت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔‘‘
7. أبو داود، السنن، كتاب الإجارة، باب في ثمن الخمر والميتة، ج: 3، ص: 279، الرقم: 3485
یہ حدیث اس اصولِ کلی کی صریح دلیل ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود حرام قرار دیا ہے اس کی خرید و فروخت اور اس سے حاصل ہونے والا معاوضہ بھی ناجائز ہے، کیونکہ حرام چیز کے بدلے میں حاصل ہونے والا مال درحقیقت باطل طریق سے کھایا گیا مال ہے۔ لہٰذا شراب، مردار اور خنزیر جیسے نجس و حرام اشیاء کی تجارت نہ صرف شریعت میں ممنوع ہے بلکہ ان کا ثمن بھی فاسد و ناپاک ہے، اور مسلمان کے لیے جائز و طیب مال صرف وہی ہے جو مباح ذرائع سے حاصل کیا جائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد الله ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
’’اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام فرماتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔‘‘
8. أبو داود، السنن، كتاب الإجارة، باب في ثمن الخمر والميتة، ج: 3، ص: 280، الرقم: 3488
چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھی یہی روایت سنن دار قطنی میں بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى إِذَا حَرَّمَ شَيْئًا حَرَّمَ ثَمَنَهُ.
’’اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے۔‘‘
9. الدار قطني، السنن، كتاب البيوع، ج: 3، ص: 7، الرقم: 20، بيروت: دار المعرفة
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شے کو شریعت نے بذاتِ خود حرام کر دیا، اس کے خرید و فروخت کے ذریعے نفع حاصل کرنا بھی ناجائز اور ممنوع ہے۔ شارح صحیح مسلم امام نووی شافعی رحمہ اللہ حرام اشیاء کی خرید وفروخت پر سیر حاصل گفتگو فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:
وَأَمَّا المَيْتَةُ وَالخَمْرُ وَالخِنزِيرُ فَأَجْمَعَ المُسْلِمُونَ عَلَى تَحْرِيمِ بَيْعِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهَا.
’’رہا مسئلہ مردار، شراب اور خنزیر کا، تو ان کی خرید و فروخت کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘
10. النووي، شرح صحيح مسلم، ج: 11، ص: 8، بيروت: دار إحياء التراث العربي
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ، شارحِ صحیح بخاری، احادیث کی شرح میں واضح فرماتے ہیں کہ چونکہ شراب بذاتِ خود مسلمانوں پر حرام ہے، لہٰذا اس کی قیمت بھی شرعاً حرام قرار پاتی ہے، اور مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی ذمّی کو شراب کی بیع وشراء کا وکیل بنائے۔
وَفِيهِ أَنَّ الشَّيْءَ إِذَا حُرِّمَ عَيْنُهُ حُرِّمَ ثَمَنُهُ، وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ بَيْعَ المُسْلِمِ الخَمْرَ مِنَ الذِّمِّيِّ لاَ يَجُوزُ، وَكَذَا تَوْكِيلُ المُسْلِمِ الذِّمِّيَّ فِي بَيْعِ الخَمْرِ.
’’اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کسی چیز کی اصل ذات حرام قرار دی جائے تو اس کی قیمت بھی حرام ہوجاتی ہے۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ شراب کو کسی ذمی کے ہاتھ فروخت کرے، اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ مسلمان کسی ذمی کو شراب کی بیع کا وکیل بنائے۔‘‘
11. العيني، عمدة القاري، ج: 12، ص: 37، بيروت: دار إحياء التراث العربي
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، جو فنِ حدیث وشرح کے عظیم امام ہیں، انہوں نے بھی شراب کی حرمت کے بالمقابل اس کی قیمت کے حرام اور باطل ہونے پر کلام فرمایا ہے، اور اپنی عظیم شرح فتح الباری میں اس اصول کو نہایت وضاحت اور جزم کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جب شراب بذاتِ خود حرام ہے تو اس کے عوض یعنی اس کی قیمت بھی شرعاً ناجائز اور مردود ہے۔
وَقَالَ بَعْضُهُمْ فِيهِ: إِنَّ الشَّيْءَ إِذَا حُرِّمَ عَيْنُهُ حُرِّمَ ثَمَنُهُ. قُلْتُ: هَذَا لَيْسَ بِكُلِّيٍّ. وَقَالَ أَيْضًا: فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْخَمْرَ مِنَ الذِّمِّيِّ لَا يَجُوزُ، وَكَذَا تَوْكِيلُ الذِّمِّيِّ الْمُسْلِمَ فِي بَيْعِ الْخَمْرِ.
’’بعض اہلِ علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی چیز کی ذات ہی حرام قرار دی گئی ہو تو اس کی قیمت بھی حرام ہوتی ہے۔ تاہم مصنف فرماتے ہیں کہ یہ اصول ہر معاملے میں کلی طور پر لاگو نہیں ہوتا۔ پھر مزید کہا کہ اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ذمّی کو شراب فروخت کرے، اور نہ ہی یہ درست ہے کہ کوئی ذمّی شراب کی فروخت میں کسی مسلمان کو اپنا وکیل بنائے۔‘‘
12. العسقلاني، فتح الباري، ج: 4، ص: 415، بيروت: دار المعرفة
جس طرح قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبویہ میں شراب کی بیع وشراء کی حرمت صراحتاً مذکور ہے اور مفسرین کرام وشارحینِ حدیث نے اپنی تفاسیر و شروح میں اس حرمت کو نہایت وضاحت اور تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے، بالکل اسی طرح فقہاءِ کرام نے بھی اس مسئلے میں نہایت صریح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک شراب کی بیع میں کسی بھی نوع کی گنجائش، حیلہ یا استثناء نہیں، بلکہ بالاتفاق اور بلااختلاف اسے حرام اور باطل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ائمہ فقہ نے اپنے اپنے فقہی متون اور شروح میں اس حکم کو نہ صرف بیان کیا بلکہ اس پر دلائلِ شرعیہ سے مزید روشنی بھی ڈالی ہے۔ اسی سلسلے میں امام سرخسی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب المبسوط میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَا يَحِلُّ لِلْمُسْلِمِ بَيْعُ الْخَمْرِ وَلَا أَكْلُ ثَمَنِهَا بَلَغَنَا ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ حَدِيثَانِ أَحَدُهُمَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَنَ اللَّهُ فِي الْخَمْرِ عَشَرَةً وَذَكَرَ فِي الْجُمْلَةِ بَائِعَهَا وَالثَّانِي قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا وَأَكْلَ ثَمَنِهَا وَفِي حَدِيثٍ آخَرَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ الشُّحُومُ فَجَمَّلُوهَا وَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا ثَمَنَهَا. وَاَللَّهُ تَعَالَى إذَا حَرَّمَ شَيْئًا حَرَّمَ بَيْعَهُ وَأَكْلَ ثَمَنِهِ وَبِهَذِهِ الْآثَارُ تَبَيَّنَ أَنَّ الْخَمْرَ لَيْسَتْ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِ فَلَا يَجُوزُ بَيْعُهُ إيَّاهَا.
’’مسلمان کے لیے شراب بیچنا اور اس کی قیمت کھانا جائز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں رسول اللہ ﷺ سے پہنچی ہے، اور اس بارے میں دو حدیثیں مروی ہیں: پہلی حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’اللہ تعالیٰ نے شراب کے معاملے میں دس لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘ اور ان میں شراب بیچنے والے کو بھی ذکر کیا۔ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’جس ذات نے اس کا پینا حرام کیا ہے، اسی نے اس کی خرید و فروخت اور اس کی قیمت کھانا بھی حرام کیا ہے۔‘ اور ایک دوسری روایت میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’اللہ تعالیٰ نے یہود پر لعنت فرمائی، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔‘ قاعدہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو حرام فرماتا ہے تو اس کی خرید و فروخت اور اس کی قیمت کھانا بھی حرام کردیتا ہے۔ انہی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان کے حق میں شراب کوئی معتبر مال (مالِ متقوَّم) نہیں، لہٰذا اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔‘‘
13. السرخسي، المبسوط، ج: 13، ص: 137، بيروت: دارالمعرفة
امام سرخسی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف میں نصوصِ شرعیہ اور احادیثِ نبویہ کو ذکر کر کے اس امر کو صراحت کے ساتھ واضح فرمایا کہ شراب کی بیع و شراء عندہ بلا کسی تاویل و حیل کے صریحاً حرام ہے، بلکہ اس درجہ ممنوع ہے کہ اس کو مال کے زمرے میں داخل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی موقف کی تائید میں محمد بن عبد الواحد المعروف بہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے اپنی عظیم تصنیف فتح القدیر میں لکھا ہے:
فَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثِ {إنَّ اللَّهَ إذَا حَرَّمَ شَيْئًا} يَعْنِي إذَا حَرَّمَ مَا هُوَ الْمَقْصُودُ مِنْ الشَّيْءِ حَرَّمَ بَيْعَهُ وَأَكْلَ ثَمَنِهِ كَالْمَقْصُودِ مِنْ الْخَمْرِ وَالْمَقْصُودِ مِنْ الْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَهُوَ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ.
’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان ’اللہ جب کسی چیز کو حرام کرتا ہے۔‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے اصل مقصود اور بنیادی استعمال کو حرام قرار دیا جائے، تو اس چیز کی خرید و فروخت اور اس کی قیمت کھانا بھی حرام ہوتا ہے۔ جیسے شراب کا اصل مقصود پینا، اور مردار و خنزیر کا اصل مقصود کھانا ہے، سو جب یہ مقاصد حرام ہیں تو ان کی بیع اور ان کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے۔‘‘
14. ابن همام، فتح القدير، ج: 7، ص: 122، بيروت: دار الفكر
علامہ شامی ابنِ عابدین رحمہ اللہ نے شراب کی بیع وشراء کے مسئلہ میں صراحت فرمائی ہے کہ شرعاً خمر کی خرید و فروخت مطلقاً ممنوع اور باطل ہے، کیونکہ وہ شرعاً مالِ متقوَّم نہیں، لہٰذا اس کی بیع نہ منعقد ہوتی ہے اور نہ اس کی قیمت حلال قرار پاتی ہے:
وَبَطَلَ بَيْعُ مَالٍ غَيْرِ مُتَقَوَّمٍ كَخَمْرٍ وَخِنزِيرٍ وَمَيْتَةٍ تَمَّتْ حَتْفَ أَنْفِهَا بِالثَّمَنِ.
’’ایسی چیز کی خرید و فروخت باطل ہے جو شرعاً مال متقوم نہ ہو، جیسے شراب، خنزیر اور وہ مردار جو بغیر کسی شرعی سبب کے خود ہی مر گیا ہو، ان سب کی قیمت لینا درست نہیں۔‘‘
15. ابن عابدین، ردالمحتار، ج: 5، ص: 73، بیروت: دار الفکر
علامہ احمد بن ادریس القرافی رحمہ اللہ نے بیع کے جواز و عدمِ جواز کے قواعد کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی خرید و فروخت کے جائز ہونے کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں پانچ بنیادی شرائط پائی جائیں، اور اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو بیع ناجائز ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہی پانچ شرائط بیعِ جائز اور بیعِ ناجائز کے مابین اصل امتیاز ہیں، اور وہ درج ذیل ہیں:
الشَّرْطُ الأَوّلُ: الطَّهَارَةُ، لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي الصَّحِيحَيْنِ {إنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ، فَقِيلَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْت شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّهَا يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُسْتَصْبَحُ بِهَا فَقَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا}.
پہلی شرط: طہارت ہے۔ اس کے لیے نبی کریم ﷺ کا صحیحین میں فرمان ہے: ’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے۔‘ پھر عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! مردار کی چربی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ وہ تو کشتیوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلانے میں استعمال ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تھی تو انہوں نے اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔‘
الشَّرْطُ الثَّانِيُ: أَنْ يَكُونَ مُنْتَفَعًا بِهِ لِيَصِحَّ مُقَابَلَةُ الثَّمَنِ لَهُ.
دوسری شرط: یہ ہے کہ اس چیز سے نفع حاصل ہونا ممکن ہو، تاکہ اس کے عوض قیمت لینا درست ہو۔
الشَّرْطُ الثَّالِثُ: أَنْ يَكُونَ مَقْدُورًا عَلَى تَسْلِيمِهِ حَذَرًا مِنْ الطَّيْرِ فِي الْهَوَاءِ وَالسَّمَكِ فِي الْمَاءِ وَنَحْوِهَا لِنَهْيِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ.
تیسری شرط: یہ ہے کہ وہ چیز حوالگی کے قابل ہو، تاکہ پرندہ ہوا میں اور مچھلی پانی میں اور ان جیسی دوسری چیزیں بیچنے سے احتراز رہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے غرر کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
الشَّرْطُ الرَّابِعُ: أَنْ يَكُونَ مَعْلُومًا لِلْمُتَعَاقِدَيْنِ لِنَهْيِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ.
چوتھی شرط: یہ ہے کہ وہ چیز دونوں معاملہ کرنے والوں کے لیے معلوم ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے باطل طریقے سے مال کھانے سے منع فرمایا ہے۔
(الشَّرْطُ الْخَامِسُ) أَنْ يَكُونَ الثَّمَنُ وَالْمَبِيعُ مَمْلُوكَيْنِ لِلْعَاقِدِ وَالْمَعْقُودِ لَهُ أَوْ مَنْ أُقِيمَا مَقَامَهُ.
پانچویں شرط: یہ ہے کہ ثمن (قیمت) اور مبیع (بیچی جانے والی چیز) دونوں عقد کرنے والے اور جس کے لیے عقد کیا جا رہا ہے، ان کی ملکیت میں ہوں یا ان کے قائم مقام کی ملکیت میں ہوں۔
فَهَذِهِ شُرُوطٌ فِي جَوَازِ الْبَيْعِ دُونَ الصِّحَّةِ؛ لِأَنَّ بَيْعَ الْفُضُولِ وَشِرَاءَهُ مُحَرَّمٌ.
یہ وہ شرائط ہیں جو بیع کے جواز میں معتبر ہیں، نہ کہ صحت میں؛ اس لیے کہ بیعِ فضولی اور اس کی خریداری فی نفسہٖ حرام ہے۔
16. القرافي، الفروق، ج: 3، ص: 385، بيروت: دار الكتب العلمية
ماضی قریب کے اجلّ فقہاء میں سے علامہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ نے حرام اشیاء کے نفع اور ان کے مالی معاوضات کے بارے میں نہایت دقیق اور صریح اصول بیان فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کے نفع یا اس سے حاصل ہونے والے فائدے کو کسی بھی جہت اور کسی بھی پہلو سے حرام قرار دے دے، تو ایسی چیز یا اس کے ناجائز نفع کے بدلے کوئی مال لینا مطلقاً جائز نہیں ہوتا۔ خواہ وہ معاملہ بیع و شراء کی شکل میں ہو، یا اجارہ و کرایہ کے عنوان سے ہو، یا کسی اور قسم کے مالی عقد و معاوضہ کے قالب میں ہو؛ ہر صورت میں اس کی حرمت برقرار رہتی ہے۔ پھر وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جن سے انتفاع شرعاً حرام ہے، دراصل دو اقسام پر منقسم ہیں:
أَحَدُهُمَا: مَا يُحَرَّمُ الِانْتِفَاعُ بِهِ مُطْلَقًا فِي جَمِيعِ الْحَالَاتِ، أَوِ الْغَالِبُ فِيهِ أَنَّهُ لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إِلَّا فِي الْمَنْفَعَةِ الْمُحَرَّمَةِ كَالْأَصْنَامِ، وَالْخَمْرِ، وَالْخِنْزِيرِ، فَهٰذَا لَا يَجُوزُ أَخْذُ ثَمَنٍ فِي مُقَابِلِهِ مُطْلَقًا.
پہلی قسم: وہ چیزیں جن سے ہر حال میں اور مطلق طور پر فائدہ اٹھانا ممنوع ہے، یا جن کا عام طور پر فائدہ صرف حرام ہی ہوتا ہے، جیسے بت، شراب اور خنزیر۔ لہٰذا ان کے بدلے ہرگز قیمت لینا جائز نہیں۔
وَالثَّانِي: مَا يُحَرَّمُ الِانْتِفَاعُ بِهِ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ، وَفِي صُورَةٍ دُونَ صُورَةٍ، فَيَجُوزُ أَخْذُ الثَّمَنِ فِي مُقَابِلِ الْمَنْفَعَةِ الْمُبَاحَةِ دُونَ الْمَنْفَعَةِ الْمُحَرَّمَةِ، مِثْلَ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَالطُّيُورِ الْجَارِحَةِ الَّتِي يُصَادُ بِهَا.
دوسری قسم: وہ چیزیں جن سے بعض حالتوں میں فائدہ اٹھانا حرام ہے اور بعض حالتوں میں مباح، تو ایسی چیز کے جائز اور مباح فائدے کے بدلے قیمت لینا درست ہے، اور حرام فائدے کے بدلے قیمت لینا ناجائز ہے۔ مثلاً گھریلو گدھے، یا شکاری پرندے جنہیں شکار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
فَيَجُوزُ بَيْعُهَا لِلْمَنْفَعَةِ الْمُبَاحَةِ دُونَ الْمُحَرَّمَةِ.
لہٰذا ان چیزوں کی بیع صرف مباح منفعت کے لئے جائز ہے، حرام منفعت کے لئے جائز نہیں۔
17. الزحيلي، القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة، ج: 2، ص: 829، دمشق: دارالفكر
مذکورہ بالا دلائل و تصریحات سے یہ امر قطعی و مسلم ہے کہ شراب اپنی ذات میں حرام ہونے کے ساتھ اس کی قیمت بھی شرعاً حرام و باطل ہے۔ نیز اس کی قیمت کو صدقہ کرنے کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے نہایت سخت اور دوٹوک موقف اختیار فرمایا ہے، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
رَجُلٌ دَفَعَ إلَى فَقِيرٍ مِنْ الْمَالِ الْحَرَامِ شَيْئًا يَرْجُو بِهِ الثَّوَابَ يَكْفُرُ، وَلَوْ عَلِمَ الْفَقِيرُ بِذَلِكَ فَدَعَا لَهُ وَأَمَّنَ الْمُعْطِيَ كَفَرَا جَمِيعًا. عَلِمَ الْفَقِيرُ بِذَلِكَ فَدَعَا لَهُ وَأَمَّنَ الْمُعْطِيَ كَفَرَا جَمِيعًا... قُلْت: الدَّفْعُ إلَى الْفَقِيرِ غَيْرُ قَيْدٍ بَلْ مِثْلُهُ فِيمَا يَظْهَرُ لَوْ بَنَى مِنْ الْحَرَامِ بِعَيْنِهِ مَسْجِدًا وَنَحْوَهُ مِمَّا يَرْجُو بِهِ التَّقَرُّبَ؛ لِأَنَّ الْعِلَّةَ رَجَاءُ الثَّوَابِ فِيمَا فِيهِ الْعِقَابُ وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا بِاعْتِقَادِ حِلِّهِ.
’’اگر کوئی شخص حرام مال میں سے کچھ حصہ کسی فقیر کو دے اور اس کے ذریعہ ثواب کی امید رکھے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اور اگر فقیر کو اس حقیقت کا علم ہو کہ دیا ہوا مال حرام ہے، پھر بھی وہ دینے والے کے لیے دعا کرے اور دینے والا اس دعا پر آمین کہے تو دونوں کافر ہو جائیں گے۔۔۔ مصنف فرماتے ہیں: میرے نزدیک یہ حکم محض فقیر کو دینے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ اس کے مثل وہ صورت بھی ہے کہ اگر کوئی شخص حرام مال سے مسجد بنائے یا کوئی اور نیک کام کرے جس کے ذریعہ وہ قربِ الٰہی کا قصد کرے؛ اس لیے کہ علت یہ ہے کہ وہ ایسے کام کے ذریعے ثواب کی امید رکھتا ہے جس میں دراصل عقاب (عذاب) ہے، اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب وہ اس فعل کو حلال سمجھتا ہو۔‘‘
ابن عابدین، ردالمحتار، ج: 5، ص: 73
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے خمر (شراب) کو بذاتِ خود حرامِ قطعی اور ’’اُمّ الخبائث‘‘ قرار دیا ہے، لہٰذا اس کی بیع و شراء، اس کی قیمت، اور اس سے متعلق ہر قسم کا نفع و فائدہ عندالشرع ناجائز و باطل ہے۔ اسی بنا پر مفسرینِ کرام، محدثینِ عظام اور فقہاءِ امت کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ شراب کی خرید و فروخت کسی حال میں جائز نہیں، خواہ معاملہ دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب یا دارالامن میں۔ اس سے حاصل ہونے والا مال شرعاً خبیث و نجس اور ناقابلِ انتفاع ہے؛ نہ وہ صدقہ و خیرات میں معتبر ہے، نہ کسی دینی یا دنیوی مصرف میں درست ہے، بلکہ وہ خالص ’’مالِ حرام‘‘ ہے جو فسق و فجور، گناہ و لعنت اور فساد فی الارض کا موجب ہے۔ چنانچہ فقہی قواعدِ شرعیہ، نصوصِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور اجماعِ امت سب متفق ہیں کہ شراب کی بیع باطل، اس کا ثمن حرام اور اس کے ساتھ ہر قسم کا تعلق موجبِ لعنت ہے۔ یہی ایمان کا تقاضا اور شریعتِ اسلامیہ کا فیصلۂ قطعی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔