شراکت کے کاروبار کی تقسیم کس طرح ہوگی؟


سوال نمبر:6111
السلام علیکم مفتی صاحب! آج سے تقریباً بیس سال پہلے دو لوگوں نے مشترکہ طور برابر کی شراکت داری کی بنیاد پر ایک کاروبار شروع کیا۔ ایک فریق نے سرمایہ فراہم کیا اور دوسرے کے ذمہ کاروبار جو کہ دکان کی شکل میں تھی، کی دیکھ بھال یعنی مکمل طور پر چلانا تھا۔ کاروبار چل پڑا اور کاروبار سے ہونے والا منافع میں رب المال نے سب سے پہلے اپنا مکمل سرمایہ وصول کیا اور دکان دار صرف جیب حرچ یعنی آنے جانے کا کرایہ ہی دکان کے سرمایہ سے لیتا رہا، کھانا بھی وہ گھر سے لے کر آتا تھا، دکان سے نہیں کھاتا تھا اور کاروبار کو پھیلاتا رہا۔ سرمایہ دار مزید بھی آدھا منافع لیتا رہا، اس دوران دکان دار نے سرمایہ دار سے کہا کہ آپ تو اپنا سرمایہ بھی وصول کرچکے ہو اور دکان کی مکمل زمہ داری بھی میں اٹھارہا ہوں، آپ اپنے دوسرے کاروبار چلانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ میرا سارا وقت اس کاروبار میں لگ رہا ہے اور میں کوئی دوسرا کاروبار بھی نہیں کر سکتا، اس لیے میں آپ کو آدھا منافع نہیں دے سکتا۔ اس پر دونوں کےدرمیان یہ معاہدہ ہوا کہ دکان دار سرمایہ دار کو ایک مقرر شدہ ماہانہ رقم دے گا، چونکہ کاروبار کی ابتدا مشترکہ طور پر ہوئی ہے۔ دکان دار نے یہ بات مان لی اور ماہانہ طے شدہ رقم سرمایہ دار کو دیتا رہا۔ ایسا کئی سالوں تک چلتا رہا، اس کے بعد دکان میں وسعت کی وجہ سے دکان میں دوسرے آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی تو تیسرا شخص جوکہ دکان دار کا بھائی اور سرمایہ دار کا داماد تھا، دکان میں آگیا اور دکان کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد اس شحص یعنی سرمایہ دار کے داماد اور دکان دار کے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ دکان دار اور سرمایہ دار ایک اور آدمی دکان میں دکان چلانے کے لیے لائے، یہ بھی دکان دار کا بھائی تھا جبکہ سرمایہ کار نے تیسرے آنے والے شخص کو کہا کہ تم آدھے حصے کی دیکھ بھال کروگے، کیونکہ دکان آدھا میرا اور آدھا تمہارے بھائی کا ہے۔ اس آدھے حصے کا منافع میری بیوہ بیٹی کو دو گے جس کی نگرانی میں خود اور میرے بعد میرا بھائی کرے گا۔ دکان دار اس پر راضی ہوا، تھوڑے عرصے بعد دکان میں نئے آنے والے آدمی نے جوکہ دکان دار کا سگا بھائی ہی تھا نے سرمایہ کار کی بیوہ بیٹی سے نکاح کرلیا اور وہ بدستور دکان میں آدھے حصے کا منافع لیتا رہا اور اس دوران سرمایہ کار کو مزید کوئی رقم دکان دار نے نہیں دی۔ کیونکہ اس کے حصہ دکان کی نگرانی اس کا داماد کر رہا تھا اور آدھے سے زیادہ منافع بھی لے رہا تھا۔ اب سرمایہ کار کا بھی انتقال ہوچکا ہے، لیکن اس کی اولاد دکان دار جس نے مشترکہ طور پر برابر کی حساب سے کاروبار سرمایہ دار کے ساتھ شروع کیا تھا، سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چونکہ تم نے اتنا عرصہ پہلے ہمارے باپ کے ساتھ ایک زبانی معاہدہ کیا تھا کہ تم ہمارے باپ کو ماہانہ اتنی رقم دو گے، لہٰذا ہمیں وہ رقم دو اور آگے بھی دیتے رہو، جبکہ دکان دار یہ جواب دیتا ہے کہ تمہارے باپ نے اس کے بعد اپنے حصے کی مکمل دیکھ بھال اور منافع کا حصول میرے بھائی اور اپنے داماد کو سونپ دیا تھا اور ماہانہ رقم کا معاہدہ اس وقت حتم ہوگیا تھا۔ تمہارے باپ نے اپنا نمائندہ دکان میں بیٹھا لیا تھا اور وہ دکان سے آدھا بلکہ اس سے بھی زیادہ منافع لیتا رہا ہے جبکہ باقی آدھے کاروبار کا شراکت داری کے اصول کے تحت دکان دار خود مالک ہے، جس میں تم لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں اور مجھ سے تم لوگوں کا مزید کسی رقم کا مطالبہ کرنا بالکل ناجائز بلکہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔ تم لوگوں کا جو بھی لین دین ہے وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ حساب کتاب کرکے کرو کیونکہ وہ تمہارے حصے پر بیٹھا ہے اور منافع لے رہا ہے، دکان دار تو اپنے حصے پر بیٹھا ہے۔ لیکن وہ لوگ نہیں مان رہے اور دکان دار کی جائیداد پر بھی قبضہ کر چکے ہیں اور یہی کہتے ہے کہ تم ہی ہمیں وہ طے شدہ رقم دو گے۔ ان حالات میں کیا دکان دار سے سرمایہ دار کی اولاد کا ماہانہ بنیاد پر رقم دینے کا مطالبہ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اگر دکان دار مجبوری میں ان کو ماہانہ رقم دیتا ہے تو کیا وہ سود کے زمرے میں آتا ہے؟ اور کیا اس کا وبال سرمایہ کار پر ہوگا؟ کیونکہ اولاد کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے باپ کی وصیت پر رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

  • سائل: ذوالفقارعلی خانمقام: نوشہرہ
  • تاریخ اشاعت: 14 دسمبر 2022ء

زمرہ: مشارکت

جواب:

جب بھی کوئی کاروبار شروع کیا جائے تو اسے شرعی اصولوں کے مطابق ترتیب دینا اور اس کی شرائط و ضوابط کو لکھنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جتنی بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق انہی دو وجوہات سے ہوتا ہے کہ یا تو کاروبار غیرشرعی اصولوں پر بنا ہوتا ہے یا پھر اس کی بنیاد زبانی کلامی وعدہ و وعید پر ہوتی ہے اور کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا۔ یہی صورتحال مسئلۂ مسؤلہ میں بھی ہے کہ کاروبار کی نوعیت ہی طے نہیں کہ کاروبار مشارکہ کی بنیاد پر ہے یا مضاربہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، نہ ہی کوئی معاہدہ تحریری شکل میں ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاكْتُبُوْهُ ؕ

اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔

اور اسی آیتِ مبارکہ کے اگلے حصے میں مزید ہدایات دیں کہ:

اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤی اَجَلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤی اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝

القرآن، الْبَقَرَة، 2 : 282

اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اللہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اللہ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں قرض اور اس کے علاوہ لین دین اور تجارت کے معاملات خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں تمام کو لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ جو سوالنامہ ہمارے سامنے ہے اس میں سائل خود اقرار کر رہا ہے کہ ان کے معاملات کا کوئی تحریر ثبوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لین دین کا معاملہ بگڑنے کا اندیشہ ہے اگر فریقین صبر و تحمل سے مل بیٹھ کر اس مسئلے کو نہیں سلجھائیں گے تو معاملات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فریقین مناسب طریقے سے کسی کی حق تلفی کیے بغیر اس معاملے کو ختم کریں اور آئندہ کیلئے نیا معاہدہ کریں جس میں شرعی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھیں تاکہ کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو اور بعد میں ہونے والی بدمزگی سے بھی بچا جاسکے۔

مسئلہ مسؤلہ کی صورتحال کے مطابق سرمایہ کار کی اولاد کا دکاندار کی جائیداد پر قبضہ کرنا جائز نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ پہلے سے طے شدہ معاہدہ کے مطابق لین دین ختم کریں۔ اگر سرمایہ کار کا داماد معاہدہ کے مطابق تمام نفع وصول کر چکا ہے تو پھر اس کی اولاد کو حق نہیں ہے کہ وہ دکان دار سے زیادتی کریں۔ اگر انہوں نے ظلم و زیادتی کی تو اس کا وبال ان پر ہوگا، ان کے والد پر نہیں۔

لہٰذا دکاندار معاہدہ کے علاوہ انہیں ماہانہ رقم دینے کا پابند نہیں ہے۔ اگر انہوں نے دکاندار کو مجبور کر رکے ماہانہ رقم وصول کی تو یہ ان کی ظلم و زیادتی اور مالِ ناحق کھانے کے مترادف ہوگا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَی الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠۝

القرآن، الْبَقَرَة، 2 : 188

اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔

اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا۝

القرآن، النِّسَآء، 4 : 29

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

اس لیے سرمایہ کار کی اولاد کو اس مالِ ناحق سے بچنا چاہیے۔ سرمایہ کار کی اولاد کے بقول ان کے والد نے نصیحت کی تھی، اگر کی بھی تھی تو یہ وصیت بےبنیاد ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ دکاندار معاہدہ کے مطابق سرمایہ کار کے داماد کو منافع دے رہا ہے۔ اس لیے سرمایہ کار کی اولاد جو بھی اضافی مال کا مطالبہ کرے گی وہ باطل ہے۔ اس کو سود نہیں بلکہ باطل مطالبہ کہیں گے۔ اس لیے سابقہ معاہدے کے مطابق سابقہ لین دین ختم کریں اور اگر مزید شراکت چاہیں تو نیا معاہدہ کرلیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری