دوسری شادی پر پابندی کیلئے شوہر سے ’دنیا کی ساری عورتوں کو طلاق‘ کہلوانا معتبر ہے؟


سوال نمبر:5975
السلام علیکم! اگر نکاح نامے پر لڑکی کی طرف سے یہ شرط لکھی جائے کہ شوہر کبھی دوسری شادی نہیں کرسکتا اور جس لڑکی سے وہ نکاح کر رہا ہے اس کے علاوہ دنیا کی ساری عورتوں کو طلاق ہے۔ کیا ایسی صورت میں شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے؟

  • سائل: شہنازمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 29 نومبر 2022ء

زمرہ: طلاق  |  نکاح

جواب:

صورتِ مسئلہ کے مطابق اگر لڑکی نے نکاح کے وقت یہ شرط لگائی ہے کہ لڑکا اس کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرسکتا اور لڑکے نے یہ شرط قبول کر لی ہے تو یہ شرط معتبر ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یعنی اس صورت میں لڑکا اُس منکوحہ کی موجودگی میں مزید نکاح نہیں کرسکتا۔ اس کی مزید وضاحت کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے:

کیا وقت نکاح شوہر پر لگائی گئی دوسری شادی کی پابندی کی شرط معتبر ہے؟

سوال کے دوسرے حصے میں سائل کا کہنا ہے کہ لڑکی کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ’لڑکے کی اِس منکوحہ کے علاوہ دنیا کی ساری عورتوں کو طلاق ہے‘ یہ شرط غیرمعتبر ہے۔ اگر لڑکے کی پہلے سے شادی ہوئی ہے تو اس شرط کو قبول کرنے سے اُس پہلی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَايَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تَسْأَلُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا.

کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ اپنی کسی (سوکن) بہن کی طلاق کی شرط اس لئے لگائے تاکہ اس کے حصہ کا پیالہ بھی خود انڈیل لے کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کے مقدر میں ہوگا۔

بخاری، الصحیح، كِتَابُ النِّكَاحِ، بَابُ الشُّرُوطِ الَّتِي لاَ تَحِلُّ فِي النِّكَاحِ، رقم الحدیث: 5152

اسی طرح اگر نکاح کے وقت لڑکے سے یہ شرط منوالی جائے کہ وہ اس شادی کے بعد جو نکاح بھی کرے گا تو اس کی بیوی کو طلاق ہوگی تو یہ شرط فاسد و باطل ہے۔

التمهيد، 18: 166

مزید یہ کہ طلاق کے وقوع کیلئے عورت کا محلِ طلاق ہونا ضروری ہے، یعنی طلاق صرف اپنی منکوحہ کو یا کسی کی طرف سے طلاق کا اختیار ملنے کی صورت میں اُس کی منکوحہ کو دی جاسکتی ہے۔ ہر راہ جاتی عورت محلِ طلاق ہے اور نہ غیرِ محل میں دی گئی طلاق معتبر ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ.

’’ابن آدم (انسان) جس چیز کا مالک نہیں اس میں اس کے لیے نہ نذر ہے، نہ آزاد کرنا ہے، نہ ہی طلاق ہے اور نہ ہی اس کے لیے قسم ہے۔‘‘

أحمد بن حنبل، المسند، 2: 190، الرقم: 6780، مصر: مؤسسة قرطبة

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ.

’’نکاح سے پہلے طلاق نہیں۔‘‘

ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب لا طلاق قبل النكاح، 1: 660،بيروت: دار الفكر

اس سے واضح ہوا کہ نکاح میں لڑکی کی یہ شرط کہ ’ساری دنیا کی عورتوں کو طلاق ہے‘ غیر معتبر ہے۔ اس شرط سے نہ کسی عورت کو طلاق ہوتی ہے اور نہ شوہر پر دوسری شادی کی پابندی ثابت ہوتی ہے۔ ایسا شخص دوسری شادی کرسکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری