گناہ کے ارادے پر ’ان شاءاللہ‘ کہنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5957
السلام علیکم! ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا کہ کل شراب پینے آجاؤ، دوسرے نے کہا: ان شاء اللہ۔ کیا ان شاء اللہ کہنے سے وہ ایمان سے نکل گیا؟

  • سائل: عبدالرزاق ابراہیم شاہمقام: ملیگاؤں، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 03 مارچ 2021ء

زمرہ: ایمان باللہ

جواب:

صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔ اگر وہ ارادہ اچھائی کا ہو تو یہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر تکمیل نہیں پاسکتا۔ اسی نیت کے ساتھ مختصر سا جملہ ان شاءاللہ‘ کہنا شعائرِ اسلام میں سے ہے۔

ان شاءاللہ کا معنیٰ ہے ’اگر اللہ نے چاہا‘۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے یعنی اصلاً تمام قدرت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے، انسان و دیگر مخلوقات کو قدرت و اختیارات اللہ تعالی ہی نے عطاء کیا ہے۔ اسی عطاء کردہ قوت و اختیار سے انسان کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہے اور ہر کام انجام دیتا ہے۔ انسان کو دیا جانے والا یہ اختیار انسان کی آزمائش کے لئے ہے۔ اسی اختیار کے ساتھ انسان نیکی اور بدی کا ارتکاب کرتا ہے، مگر منشاء و رضائے الٰہی یہ ہے کہ انسان نیکی کرے اور برائی سے بچا رہے۔ انسان جب برائی کا ارتکاب کرتا ہے، سود کھاتا ہے، شراب پیتا ہے، ظلم کرتا ہے، حق تلفی کرتا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی انسان گناہ کے کرنے میں مجبور ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو برائی کرنے والوں سے اپنی ناراضگی کا صاف صاف اعلان کردیا ہے بلکہ انسانوں کو برائیوں سے بچانے کی خاطر بےشمار ہدایات جاری کردی ہیں۔ اس لیے برائی کا ارتکاب کرنا تو غضبِ الٰہی کا باعث ہے ہی، برائی کے ارادے کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف منسوب کرنا اہانتِ الٰہی بھی ہے۔ اس لیے جس شخص نے شراب نوشی کے ارادے کو اللہ کے چاہنے کے ساتھ منسوب کیا وہ اہانتِ الٰہی کا مرتکب ہوا ہے، جس پر اسے سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ ایسا کرنے اور شراب نوشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری