اولیاء اللہ کی کیا پہچان ہے؟


سوال نمبر:5925
السلام علیکم! ولی کسے کہتے ہیں؟ اور اس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ فلاں بندہ ولی اللّٰہ ہے؟ اور کیا کسی ولی اللّٰہ کے وسیلہ سے اللّٰہ سے دعا مانگنا جائز ہے؟

  • سائل: محمد کاشفمقام: شاہکوٹ
  • تاریخ اشاعت: 08 دسمبر 2020ء

زمرہ: تصوف

جواب:

لفظ ولی اور ولایت کا لغوی معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

الولَاَءُ، وا لتَّوالِیْ ان یحصل شیئاَنِ فصا عدًا حصولًا لیس بینھما مالیس منهما ویستعار ذلک للقرب من حیث المکان ومن حیث النسبة ومن حیث الدین ومن حیث الصداقة، والنصرة والاعتقاد والولایة النصرة.

ولاء او توالی کا مطلب دو یا زیادہ چیزیں اس طرح موجود ہوں کہ ان کے درمیان کوئی غیر نہ ہو اور اس کلمہ کو قُرب کے معنی میں استعمال کیا گیا۔ یہ قرب مکانی اور نسبی، دینی، دوستی، مدد، عقیدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا۔

(علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد، الراغب الاصفهانی، (م502)، المفردات فی غریب القرآن، طبع کراچی، ص 533)، (الامام العلامه ابن منظور (م 630ھ-711ھ)، افریقی، لسان العرب، 15: 402)

  • الولی، المحب، الصدیق، النصیر، الغالب، القریب، الناصر المالک، المتصرف، المدبر، مقتدر.

محب، دوست، مددگار، غالب، قریب، مالک، متصرف، مدبر، مقتدر۔

(الامام، السید، ابوالفیض، محمد مرتضیٰ، الزبیدی، الحنفی، شرح تاج العروس، القاموس طبع بیروت، 10: 398)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهَ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس، 10: 62-64)

’’سن لو اللہ کے دوستوں پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے۔ انہی کے لیے خوشخبری ہے، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں، اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔

اولیاء اللہ کون ہیں؟

قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اولیاء اللہ کی متعدد صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند صفات کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

1۔ اولیاء اللہ کی پہلی صفت ایمان ہے کہ وہ صاحبِ ایمان ہوں۔ ان کی ذہنی سوچ پختہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ لائے اس پر دل سے حق اور سچ ہونے کا یقین کریں۔ عقل و حواس سے ماوریٰ جو حقائق کوئی نہ جانے اور اللہ کے بتائے سے صرف نبی جانے اور مخلوق کو بتائے، اس حقیقت کو سچ جانیں اور اس پر یقین کریں۔ مثلاً: اگر نبی فرمائیں کہ شکلِ انسانی میں آنے والا فرشتہ ہے جو تمہیں تمہارا دین سمجھانے اور بتانے آیا تھا تو اب اس حقیقت کو عقل سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور نہ حواس سے، اس کا علم صرف نبی کے بتانے سے ہوسکتا ہے۔ بس نبی نے اللہ تعالیٰ، ملائکہ، انبیائے سابقین، کتب سابقہ کی تصدیق، جنات، قبرو قیامت، پل صراط، جنت، جہنم اور ان کے تفصیلی و اجمالی احوال، ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات، امت کے عروج و زوال کی تفصیلات، قرب قیامت کے آثار، جنت و اہل جنت کے حالات اللہ کی تعلیم سے جانے اور اسی کے اذن سے دنیا کو بتائے۔ جس نے ان کو سچا جانا اور ان کا یقین کرلیا، وہ مومن ہے اور اولیاء کے اندر یہ کیفیتِ ایمان عام مومنین کی نسبت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی ہے۔

2۔ اولیاء کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ تقویٰ شعار ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث پاک ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ھم قوم تحابوا فی اللہ علی غیر ارحام بینهم ولا اموال یتعاطونها فوالله ان وجوههم لنور، وانهم لعلی منابر من نور، لا یخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس ثم قرأ ھذه الایة. اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

’’اولیاء اللہ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کریں، اگرچہ ان میں رحم کے رشتے بھی نہ ہوں اور نہ کوئی مالی لین دین ہو۔ خداکی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے۔ جب لوگ تھر تھر کانپتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔

3۔ حضرت سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا:

هم الذین یذکر الله برؤیتهم.

اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے دیکھے سے اللہ یاد آجائے۔

  • حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا:

الذین اذا رئووا ذکر اللہ.

جن کے دیکھے سے اللہ یاد آجائے۔

(علامہ اسماعیل بن کثیر الدمشقی (م 774ھ)، تفسیر القرآن العظیم، 2/422، طبع لاهور)

4۔ حضرت ابوبکر الاصمؒ فرماتے ہیں:

اولیاء اللہ وہ ہیں جن کی ہدایت کا دلیل سے اللہ ضامن ہے اور اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت کے وہ ضامن ہیں۔ جب بندہ ان صفات پر کاربند ہوتا ہے، وہ ولی اللہ ہوتا ہے اور جب بندہ ولی اللہ ہوجاتا ہے تو اللہ اس کا ولی ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہیے، اس لیے کہ

لان القرب لا یحصل الامن الجانبین.

قرب دونوں طرف سے ہوتا ہے۔

5۔ متکلمین نے فرمایا اللہ کا ولی وہ ہے جس کا عقیدہ درست ہو، مبنی بر دلیل ہو:

ویکون بالاعمال الصالحة علی وفق ماوردت به الشریعة.

اور جس کے اعمال شریعت کے مطابق ہوں۔

(امام فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج: 17، ص: 126)

6۔ اسی آیت (یونس: 62) کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

ان من عباد اللہ عبادا ما هم بانبیاء ولا شهداء تغبطهم الانبیاء والشهداء یوم القیامة لمکانهم من الله تعالیٰ.

اللہ کے بندوں میں سے ایسے بندے بھی ہیں جو نہ انبیاء ہیں، نہ شہداء مگر قیامت کے دن اللہ کے ہاں ان کی عزت و مرتبہ کو دیکھ کر انبیاء و شہداء رشک کریں گے۔

عرض کی گئی:

یارسول الله! خبّرنا من هم وما اعمالهم فلعلنا نحبهم؟ قال: هم قوم تحابوا فی الله علی غیر ارحام بینهم ولا اموال یتعاطون بها، فوالله ان وجوههم لنور وانهم علی منابر من نور، ولا یخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس ثم قراء اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

ہمیں فرمائیں کہ وہ کون ہیں اور ان کے اعمال کیا ہیں کہ ہم ان سے محبت کریں؟ فرمایا: یہ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، ان میں رحم (نسب) کے رشتے ہیں اور نہ کوئی مالی لین دین ہے۔ خدا کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور نورکے منبروں پر رونق افروز ہوں گے، جب لوگ ڈرتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهَ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

7۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

اولیاء الله قوم صفرالوجوه من السهر.

راتوں کے جگراتوں سے ان کے چہرے زرد.

عمش العیون من العبر

ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر

خمص البطون من الجوع

بھوک سے ان کے پیٹ سکڑے ہوئے

یبس الشفاه من الذوی۔۔۔

پیاس سے ہونٹ خشک۔

جب اللہ ان کا والی، وارث اور دوست ہوجاتا ہے تو یہ دنیا و آخرت کے خوف و غم سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

لا خوف علیهم لان الله یتولاهم ولا هم یحزنون لتعویض الله ایاهم فی اولاهم واخراهم لانه ولیهم ومولاهم.

ان پر کچھ خوف نہیں، اس لیے کہ اللہ ان کا دوست ہے۔ نہ وہ دنیا میں غمگین ہوتے ہیں اس لیے کہ اللہ ان کو دنیا و آخرت میں صلہ دیتا ہے کہ وہ ان کا ولی و مولیٰ ہے۔

(امام قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 8: 228، طبع مصر)

8۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (حدیث قدسی) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

من عادیٰ لی ولیًّا فقد اذنته بالحرب، وماتقرب الی عبد بشئی احب مما افترضتُ علیه، وما یزال عبدی یتقرّبُ الی بالنوافل حتی احببتهُ، فکنتُ سمعه الذی یسمع به، وبصره الذی یبصُرُ به، ویده التی یبطش بھا، ورجله التی یمشی بھا، وان سالنی لَاُعطِیَنّهٗ، ولئن استعاذنی لَاُعِیْذنّهٗ، وما ترددتُّ عن شیئٍ انا فاعله تَرَدُّدِی عن نفس المومن یکره الموت وانا اکره مساء تَهٗ ولا بُدّلهٗ منه.

’’جس کسی نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اُسے اعلان جنگ کرتا ہوں اور بندے کا میرا قرب حاصل کرنے کے لیے میں نے جو احکام اس پر فرض کیے ہیں، ان کے بجا لانے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور میرا بندہ ہمیشہ نفلی عبادت کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور ا سکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پائوں بنتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر مجھ سے مانگے تو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور اسے پناہ دیتا ہوں اور میں جو کرنا چاہوں اس میں مجھے کوئی تردد نہیں، جتنا تردد مجھے مسلمان کی جان سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔ حالانکہ اس سے اسے چارہ نہیں‘‘۔

9۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کی:

یارسول اللہ! الرجل یعمل العمل ویحمده الناس علیه ویثنون علیه به فقال رسول الله: تلک عاجلی بشریٰ المومن.

یارسول اللہ! ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مومن کی فوری خوشخبری ہے۔ (مسلم)

10۔ اللہ رب العزت نے اولیاء اللہ کو ملنے والے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهَ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس: 64)

ان کے لیے خوشخبری ہے دنیوی زندگی اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

یعنی انہیں اچھے اچھے خواب آتے ہیں، فرشتے موت کے وقت انہیں خوشخبریاں سناتے ہیں، فرشتے کہتے ہیں:

السَّلَامُ عَلَیْکَ وَلِیَّ اللّٰهِ، اللّٰہ یقْرئکَ السَّلَام.

اللہ کے ولی تجھ پر سلام، اللہ تجھے سلام فرماتا ہے۔

فرشتے اولیاء کو اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں اور فرشتے انہیں سلام کرتے ہیں، اللہ کی رحمت، جنت، رضا اور اجرو ثواب کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اچھی تعریف خدا و خلق کی طرف سے۔ یہ اللہ کا کلام ہے اس کے خلاف ممکن نہیں۔

(القرطبی، الجامع للاحکام القرآن، 8: 229)

  • اچھے خواب جو مومن کے لیے خوشخبری ہے، فیضانِ نبوت کا انتالیسواں (39) حصہ ہیں۔ فرمایا:

فَمَنْ راٰی ذٰلک فلیخُبْرِبِهَا.

جو ایسے خواب دیکھے، وہ دوسروں کے آگے ان کا ذکر کرے۔

ومن رایٰ سواء ذلک فانما ھو من الشیطان لیحزنه فلیسنغث عن یساره ثلاثا ولیکبر ولا یخبربھا احدا. (احمد)

اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے تاکہ اسے غمگین کردے۔ اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اُسے چاہیے کہ وہ بائیں طرف تین دفعہ تھوک دے اور اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے بھی اس خواب کا ذکر نہ کرے۔

  • حضرت ام کریز کعبیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

ذهبت النبوة وبقیت المبشرات.

نبوت ختم ہوگئی مبشرات باقی ہیں۔

  • وقیل المراد بذلک بشری الملائکة للمومن عنداختصاره بالجنة والمغفرة.

کہا گیا ہے اس سے مراد فرشتوں کا مرتے وقت مومن کو جنت اور بخشش کی خوشخبری سنانا ہے۔

جیسا کہ قرآن میں ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ. نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ. نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ.

(فصلت، 14: 30-32)

’’جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ مغموم ہو اور اس جنت پر خوشیاں منائو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ہم تمہارے دوست ہیں، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے اس جنت) میں وہ سب کچھ ہے جو تمہارا جی چاہے اور اس میں وہ سب کچھ ہے جو مانگو، یہ مہمانی ہے بخشنے والے مہربان خدا کی طرف سے۔

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:

ان المومن اذا حضره الموت جاءه الملائکة بیض الوجوه، بیض الثیاب فقالوا اخر جی ایتھا الروح الطیبة الی روح وریحان ورب غیر غضبان فتخرج من فمه کما تسیل القطرة من فم السقاء واما بشراهم فی الآخرة فکما قال تعالیٰ (لا یحزنهم الفزع الاکبر وتتلقاهم الملائکة ھذا یومکم الذی کنتم توعدون) وقال تعالیٰ (یوم تری المومنین والمومنات یسعی نورهم بین ایدیهم وبایمانهم بشراکم الیوم جنت تجری من تحتها الانهار خالدین فیها ذلک ھوالفوز العظیم) وقوله (لا تبدیل لکلمت الله) ای ھذا الوعد لا یبدل ولا یخلف ولا یغیر بل ھو مقرر، مثبت کائن لا محالة (ذلک ھوالفوز العظیم.)

مومن کے پاس جب موت آتی ہے تو اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نورانی سفید چہروں والے، سفید لباس والے اور کہتے ہیں: اے پاک روح! نکل خوشبوئوں و باغوں کی طرف اور رب مہربان کی طرف، تو روح اس کے منہ سے ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ۔ رہ گئی ان کو آخرت میں خوشخبری تو جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وہ بڑی گھبراہٹ ان کو پریشان نہیں کرے گی‘‘ اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اور فرمان باری تعالیٰ ’’اور جس دن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، تمہیں مبارک ہو آج کے دن، باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے) اور یہ جو فرمایا ’’اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں‘‘ یعنی یہ وعدہ نہ بدلے گا، نہ اس کے خلاف ہوگا، نہ تغیر ہوگا، بلکہ پکا ہے، ثابت ہے لازمی ہونے والا (یہی بڑی کامیابی ہے)۔

(علامه ابن کثیر دمشقی، م 774، تفسیر القرآن العظیم، 2: 424، طبع لاهور)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی