کیا مشت زنی کی حرمت مشکوک اور یہ محض مکروہ عمل ہے؟


سوال نمبر:5821
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص مشت زنی کو مکروہ تنزیہی سمجھتا ہو اور وہ یہ کہتا ہو کہ قران میں سورہ مومنون کے آیت نمبر 7 میں مراد زنا اور لواطت ہے کیونکہ وہ آیت بعض نامور محققین مشت زنی پر فٹ نہیں کرتے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کو اگر عربی کی فہم کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ آیت اپنی شرمگاہ کو کسی اور کے شرمگاہ میں استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ اور اس آیت سے استدلال پکڑنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اور وہ آدمی کہتا ہے کہ اس حوالے سے جتنی بھی احادیث آئی ہیں وہ ضعیف یعنی اتنے مضبوط ترین نہیں جس سے حلال اور حرام ثابت کی جائے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نوجوانوں کو شادی کا طاقت نہ رکھنے کی صورت میں روزے رکھنے والی حدیث جو مشت زنی پر فٹ کی جاتی ہے وہ کہتا ہے کہ پیغمبر تو اسی ہی بات کا حکم دے گا جو اعلی ہو یعنی روزے رکھنا ۔ مکروہ کام کا حکم تو نہیں دے گا پیغمبر ۔ بعض آثار صحابہ سے بھی یہ استمنا مطلقاً حرام معلوم نہیں ہوتی۔۔جیسا کہ ایک صحابی سے منقول ہے جب اس سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ توبہ توبہ اسے تو بہتر تھا کہ لونڈی سے نکاح کرلیتے ۔اور یہ کام زنا سے بہتر ہے ۔اور ایک اور صحابی سے پوچھا گیا تو اس نے فرمایا کہ یہ تو آپ کا پانی ہے چاہے نکالو ۔اور ایک اور صحابی سے پوچھا گیا تو اس نے فرمایا کہ یہ محض شرمگاہ کو رگڑنا ہے یہاں تک کہ پانی نکل جائے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو 10 کوڑوں کی سزا دی جو سر عام راستے میں یہ عمل کر رہا تھا ۔تو وہ آدمی یہ جواب دیتا ہے کہ وہ تو اصل میں فحاشی کی وجہ سے اسے سزا دی تھی اگر کوئی سر عام راستے میں پیشاب بھی کرتو تو اس کو بھی سزا سنائی جاتی ۔تو ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے مشت زنی کو مطلقا حرام اور پلید اور گناہ کبیرہ قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتی۔اور اس کے علاوہ وہ آدمی کہتا ہے کہ مشھور فقھاء اور محدثین کا بھی اس کے مطلقا حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔اور وہ آدمی کہتا ہے کہ مجبوری کی حالت میں اگر آدمی 2 ،ڈھائی سال بیوی سے دور ہو اور ملک میں روزی روٹی کا ظاہری طور پر کوئی زریعہ نہ ہو مجبوری سے باہر رہتا ہو ۔تو اس صورت میں اگر اس مکروہ تنزیہی کا ارتکاب اگر ہو جائے تو اتنا بڑا گناہ کبیرہ اور مطلقا حرام اور پلید کام نہیں جو زیادہ تو علماء کہتے ہیں ۔تو اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے کیا یہ آدمی فاسق اور فاجر ہو جائے گا ۔اور جھنم کا مستحق ہو جائے گا۔ یا پھر کوئی رعایت ملے گا اس کو۔ مہربانی فرما کے مضبوط ترین دلائل کی روشنی میں قابل فھم اور مفصل اور روایتی انداز سے ہٹ کر تحقیقی انداز میں جواب عنایت کیجئے ۔۔ 

  • سائل: محمد یاسرمقام: متحدہ عرب امارات
  • تاریخ اشاعت: 26 اکتوبر 2022ء

زمرہ: زنا و بدکاری

جواب:

مشت زنی قرآن و حدیث کے دلائل، آئمہ کے اقوال، جمہور فقہاء کے اجماع اور اسلام کے پاکیزہ مزاج کی رو سے حرام، ناجائز اور ممنوع عمل ہے۔ سورہ المؤمنون کی آیت 7 کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ شریعت میں صرف بیویوں اور شرعی باندیوں سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی دیگر تمام صورتیں جیسے مرد کا مرد سے، عورت کا عورت سے، شوہر کا بیوی یا شرعی باندی کی دبر میں، کسی آلہ سے یا اپنے ہاتھ سے شہوت پوری کرنا حرام ہے۔

کسی حدیث کی سند کمزور ہونے یا کسی راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے حدیث کو رد کرنا ضروری نہیں ہوتا، بعض اوقات ضعیف روایات بھی تعامل کی وجہ سے معتبر قرار دی جاتی ہیں اور اُن کو قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔ تعاملِ امت تصحیح حدیث کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے جس سے باوجود ضعفِ سند کے حدیث کے مضمون کو صحیح سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے مشت زنی کی مذمت سے متعلق اگر کسی حدیث کی سند میں ضعف موجود بھی ہو تب بھی یہ جمہور اہل علم اور آئمہ فقہاء کی آراء سے مؤید ہے۔گزشتہ چودہ صدیوں سے تعاملِ امت یہی ہے کہ مشت زنی کو حرام سمجھا گیا ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ ایسی احادیث کو سرے سے غیرمعتبر قرار دینا اصول فقہ اور اصول حدیث سے نادانی کی دلیل ہے۔

فقہ کا اصول ہے کہ جو کام حرام اور ممنوع ہیں ان میں بعض کی حرمت شرعی ہے اور بعض کی حرمت عقلی ہے، یعنی بعض کی ممانعت کو قرآن و سنت نے بیان کیا ہے اور بعض کی ممانعت اور حرمت پر عقلِ انسانی اور فطرتِ سلیمہ متفق ہیں خواہ اس پر کوئی نص وارد ہوئی ہو یا نص وارد نہ ہوئی ہو۔ اس بات کے پیش نظر یہ بات ضروری نہیں کہ ہر بات کی حرمت کی نص قرآن و سنت میں مذکور ہو تو وہ حرام ہوگی ورنہ اس کی حرمت کا ثبوت نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی نوجوان حضرات کو اشتہاء اور شدت شہوت کی شکایت رہی اور بعض روایات کے مطابق اس کے معالجہ کے لیے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آئے لیکن آپ نے شادی کرنے یا روزے رکھنے کے ذریعے اس کا علاج کرنے کا امر تو فرمایا مگر مشت زنی کی طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا، جس سے یہ واضح ہے کہ اس عمل کو اس دور میں بھی مبغوض سمجھا جاتا تھا۔ نہ پوچھنے والے حضرات اس کو پوچھتے تھے اور نہ بتانے والے ا سکی موافقت کی رائے دیتے تھے۔ گویا تمام لوگوں میں یہ طے تھا کہ یہ مزاج سلیم اور فطرت صحیحہ کے خلاف ہے۔ اسی وجہ سے نہ اس کے بارے میں سوال ہوتا اور نہ شہوت کو ختم کرنے کے لیے اس کو علاج میں بتایا جاتا۔ جو اس کے ممنوع ہونے کی ایک بہت بڑی اور واضح دلیل ہے۔

مشت زنی کوئی ایسا مفید عمل نہیں کہ اس کے جواز کیلئے غیرمنطقی اور کمزور دلائل اکٹھے کیئے جائیں، اس فعلِ بد سے ہر طرح کی قدغن اُٹھا کر یا اس کے گناہ میں نرمی تاثر پیدا کرکے اسے معمولی سا برا کام بنا دیا جائے اور نوجوان طبقے کو ترغیب دی جائے کہ وہ بلا روک ٹوک اس گناہ کو کرنے لگیں اور اسی کے سہارے زندگیاں گذارنے کے عادی بن جائیں۔ مشت زنی ایک غیرفطری فعل ہے اور محض شہوت رانی اور خود لذتی کے لیے اس فعل بد کو کسی نے جائز قرار نہیں دیا بلکہ جمہور فقہاء کرام نے اس فعل کو ناجائز اور مذموم قرار دیا ہے البتہ فقہاء کرام ایسے شخص کے لیے جو شہوت سے مغلوب ہو گیا ہو اور زناء میں مبتلا ہونے کے خوف سے اگر اس فعل کے ذریعے تسکین حاصل کر لے تو اس خاص صورت میں اس پر وبال نہ ہونے کا قول کیا ہے۔ مگر یہ قول بھی جمہور کا نہیں بلکہ بعض فقہاء کا ہے۔ اس لیے خود لذتی کو مطلقاً جائز قرار دینا سراسر غلط اور جہالت ہے۔ نکاح کے بعد بیوی سے استمتاع کے علاوہ تسکینِ شہوت کی باقی تمام غیرفطری صورتیں ناجائز اور گناہ ہیں، ان میں خود لذتی یعنی ہاتھ سے منی نکالنا بھی شامل ہے۔

اگر کوئی شخص تحقیق کے بعد اس عمل کے جواز و عدمِ جواز کے بارے میں دوسروں کی آراء سے اختلاف رکھتا ہے تو یہ اس کا علمی حق ہے، اس علمی اختلاف کی وجہ سے اُسے فاسق و فاجر اور جہنمی قرار دینے کا رویہ درست نہیں۔ یہ علم کا میدان ہے، جہاں ہر شخص کو اپنی دلیل پیش کرنے کا اور مخاطبین کو اُسے قبول یا رد کرنے کا حق حاصل ہے۔ دلیل دینے والے شخص کو جنت یا جہنم کا ٹکٹ دینا کسی کا حق نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری