جواب:
شریعت اسلامیہ نے عقودِ بیع اور مالی معاملات میں ان امور کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے فریقین کے درمیان نزاع و مخاصمت کا قوی امکان ہو یا ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر استعمال کرنا پایا جاتا ہو۔ ان ہی امور میں ’قبضہ علی المبیع‘ یعنی فروخت کردہ شے کے قبضہ کا معاملہ ہے۔ بائع جس سامان کو بیچ رہا ہو اس پر اس کا قبضہ ہونا ضروری ہے تاکہ خرید و فروخت مکمل ہونے پر فروخت کنندہ کے حوالہ کردے۔ اصولی طور پر تمام فقہائے کرام اور آئمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ بیع قبل القبض جائز نہیں ہے لیکن اس کی تفصیلات اور جزئیات میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔
احناف کے نزدیک شرعی اصطلاح میں قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع اور مشتری کے مابین ایسے طور پر تخلیہ کردیا جائے کہ مشتری کو قبضہ کرنے کی قدرت حاصل ہوجائے جس میں بائع کی طرف سے کوئی مانع اور حائل نہ رہے۔ قبضہ حسّی کبھی شے کو ہاتھوں میں لینے سے ہوتا ہے اور کبھی دوسرے طریقہ سے بھی۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ ہی کے برابر ہے۔ شریعتِ مطاہرہ میں قبضہ کی کسی خاص ہیئت کو مقرر نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختلف چیزوں کا قبضہ مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ کسی خاص ہیئت کو مقرر نہیں کیا گیا ہے بلکہ جس طرح کا استیلاء عرفاً قبضہ سمجھا جاتا ہے اس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جائے گا۔ احناف کے نزدیک شے کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ بھی کافی ہے۔ مروجہ تجارتی شکلوں میں تخلیہ کا معنی و مصداق یہ ہوگا کہ فروخت کردہ شے کا حکمی قبضہ ثابت ہوجائے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی مروجہ تجاری شکلوں میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ ضروری کارروائی عمل میں لے آئی جائے اس طور پر کہ فروخت کردہ شے کا ضمان بائع سے مشتری کی طرف منتقل ہوجائے اور سامان کی ذمہ داریاں (Liabilities) اور فوائد (Profits) کا وہ حق دار بن جائے۔
اگر آپ لوگ کسی چیز کی تشہیر کر کے اس کو خریدار تک پہنچاتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جو چیز قبضے میں نہ ہو اس کو فروخت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی قیمت وصول کی جاسکتی ہے لیکن آرڈر پر چیز خرید کر دینے کا معاہدہ جائز ہے، اس کی ممانعت نہیں ہے۔ اس صورت میں شے کی جنس، نوع، صفت، مقدار، وصولی کی تاریخ، ادا شدہ رقم کی مقدار کا تعین، حمل و نقل کے مصارف کا تعین لازم ہے۔ ایسی صورت شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔