مفرد کیلئے نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہونا کیسا ہے؟


سوال نمبر:5793
السلام علیکم! حضور میں نماز کے لیے مسجد میں لیٹ پہنچا اور میں نے اپنی نماز شروع کر دی تھی۔ جماعت ہوچکی تھی لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ امام صاحب سے کہا کہ آپ نے تین رکعتیں پڑھائی ہیں پھر قاری صاحب نے دوبارہ جماعت کروائی۔ پھر میں نے اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو گیا ؟کیا میں نے ٹھیک کیا؟

  • سائل: معظم علیمقام: بارسلونا، سپین
  • تاریخ اشاعت: 28 اگست 2020ء

زمرہ: نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل

جواب:

تنہا فرض نماز شروع کرنے والے کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

جَازَ نَقْضُ الصَّلَاةِ مُنْفَرِدًا لِإِحْرَازِ الْجَمَاعَةِ.

جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے تنہا نماز پڑھنے والے کا نماز کو توڑنا جائز ہے

ابن عابدين شامي، رد المحتار، باب إدراك الفريضة، 1: 51، بيروت: دار الفكر

لیکن نماز توڑنے کے کچھ اصول وضوابط ہیں، اُن کو مدِنظر رکھتے ہوئے نماز توڑ کر جماعت کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے علامہ شامی طویل وضاحت کے بعد فرماتے ہیں:

حَاصِلُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ: شَرَعَ فِي فَرْضٍ فَأُقِيمَ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ لِلْأُولَى قَطَعَ وَاقْتَدَى، فَإِنْ سَجَدَ لَهَا، فَإِنْ فِي رُبَاعِيٍّ أَتَمَّ شَفْعًا وَاقْتَدَى مَا لَمْ يَسْجُدْ لِلثَّالِثَةِ، فَإِنْ سَجَدَ أَتَمَّ وَاقْتَدَى مُتَنَفِّلًا إلَّا فِي الْعَصْرِ، وَإِنْ فِي غَيْرِ رُبَاعِيٍّ قَطَعَ وَاقْتَدَى مَا لَمْ يَسْجُدْ لِلثَّانِيَةِ، فَإِنْ سَجَدَ لَهَا أَتَمَّ وَلَمْ يَقْتَدِ... وَإِنْ قَيَّدَهَا بِسَجْدَةٍ فِي غَيْرِ رُبَاعِيَّةٍ كَالْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ وَيَقْتَدِي أَيْضًا مَا لَمْ يُقَيِّدْ الثَّانِيَةَ بِسَجْدَةٍ، فَإِنْ قَيَّدَهَا أَتَمَّ، وَلَا يَقْتَدِي لِكَرَاهَةِ التَّنَفُّلِ بَعْدَ الْفَجْرِ ، وَبِالثَّلَاثِ فِي الْمَغْرِبِ ، وَفِي جَعْلِهَا أَرْبَعًا مُخَالَفَةً لِإِمَامِهِ ، فَإِنْ اقْتَدَى أَتَمَّهَا أَرْبَعًا لِأَنَّهُ أَحْوَطُ لِكَرَاهَةِ التَّنَفُّلِ بِالثَّلَاثِ تَحْرِيمًا ، وَمُخَالَفَةُ الْإِمَامِ مَشْرُوعَةٌ فِي الْجُمْلَةِ كَالْمَسْبُوقِ فِيمَا يُقْضَى وَالْمُقْتَدِي بِمُسَافِرٍ.

اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے: وہ فرض نماز میں شروع ہوا تو پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے قبل جماعت کھڑی ہو گئی وہ نماز کو توڑ دے اور اقتدا کرے۔ اگر اس نے رکعت کا سجدہ کر لیا تھا، اگر وہ رباعی (چار رکعات والی نماز) میں تھا تو وہ دو گانہ (دو رکعات) کو مکمل کرے اور جب تک تیسری رکعت کے لیے سجدہ نہ کیا ہو تو امام کی اقتدا کرے۔ اگر (تیسری رکعات کا) سجدہ کر لیا ہو تو (فرض نماز) مکمل کرے اور نفل کی نیت سے امام کی اقتدا کرے۔ مگر عصر میں اس طرح نہ کرے۔ اگر چار رکعتوں والی نماز نہ ہو تو نماز کو توڑ دے اور جب تک دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو اقتدا کرے۔ اگر اس کا سجدہ کر لیا ہو تو (تنہا ہی اپنی) نماز مکمل کرے اور اقتدا نہ کرے۔۔۔ اگر چار رکعتوں والی نماز کے علاوہ میں سجدہ کے ساتھ مقید کر لیا ہوجیسے فجر اور مغرب تو وہ نماز کو قطع کر دے اور امام کی اقتدا کرے جب تک دوسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ مقید نہ کرے۔ اگر مقید کر دیا ہو تو نماز کو مکمل کرے اور اقتدا نہ کرے۔ کیونکہ فجر کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہوتا ہے اور مغرب کے وقت میں تین نفل پڑھنا مکروہ ہوتا ہے اور انہیں چار رکعات بنانا امام کی مخالفت ہوتی ہے۔ اگر امام کی اقتدا کرے تو چار رکعات مکمل کرے، اس میں زیادہ احتیاط ہے۔ کیونکہ تین نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اور امام کی مخالفت فی الجملہ مشروع ہے جس طرح مسبوق اس نماز میں جس کی وہ قضا کرتا ہے، اور مقتدی، مسافر امام کی مخالفت کرتا ہے۔

ابن عابدين شامي، رد المحتار، مطلب قطع الصلاة يكون حراما ومباحا ومستحبا و واجبا، 2: 52

درج بالا طویل اقتباس سے مفرد (تنہا) فرض نماز ادا کرنے والے سے متعلق درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں:

  1. اگر مفرد فرض نماز ادا کرنے والے نے پہلی رکعت کا سجدہ نہیں کیا تھا اور باجماعت نماز شروع ہوگئی تو مفرد اپنی تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے
  2. اگر مفرد نے پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تھا اور جماعت کھڑی ہوگئی تو چار رکعات والی نماز میں قعدہ اولیٰ کے بعد سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوسکتا ہے
  3. اگر مفرد فرض نماز کی تیسری رکعت ادا کر رہا تھا اور باجماعت نماز شروع ہوگئی تو تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے اپنی تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے
  4. اگر مفر نے تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تھا اور باجماعت نماز شروع ہوگئی تو اپنی تنہا نماز جاری رکھے اور مکمل کرے
  5. اگر مفرد فجر یا مغرب کے فرائض ادا کر رہا تھا، پہلی رکعت کا سجدہ بھی کر لیا تھا اور فرائض کی جماعت کھڑی ہوگئی تو تنہا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے
  6. فجر اور مغرب میں دوسری رکعت کا سجدہ ادا کر لینے کی صورت میں تنہا نماز ہی ادا کرے
  7. اگر مفرد نے ظہر یا عشاء کے فرائض کی ادائیگی تنہا کرلی تھی اور جماعت شروع ہوگئی تو نوافل کی نیت سے جماعت کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے
  8. اگر مفرد نے فجر یا عصر کے فرائض کی ادائیگی تنہا کرلی تھی اور جماعت شروع ہوگئی تو جماعت کے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا ہے
  9. اگر مفرد نے مغرب کے فرائض کی ادائیگی تنہا کرلی تھی اور جماعت شروع ہوگئی تو نوافل کی نیت سے جماعت کے ساتھ شامل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ تین نوافل جائز نہیں
  10. اگر مفرد مغرب کے فرائض کی ادائیگی تنہا کرلی تھی اور جماعت شروع ہوگئی اور وہ بھی نوافل کی نیت سے مقتدی ہو گیا تو اس صورت میں امام کے ساتھ تین رکعت ادا کرنے کے بعد ایک رکعت اضافی ادا کرے گا تاکہ اس کے چار نوافل ہو جائیں

مذکورہ تمام تفصیل کے بعد سائل دیکھ لے کہ وہ کس حالت میں نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوا، اگر بیان کردہ اصول و ضوابط میں سے کسی اصول کے مطابق نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوا تھا تو درست، ورنہ نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری