جواب:
فقہ حنفی کے امام حضرت ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَلِأَهْلِ الْمَحَلَّةِ تَحْوِیلُ بَابِ الْمَسْجِدِ خَانِیَّةٌ وَفِي جَامِعِ الْفَتَاوَی لَهُمْ تَحْوِیلُ الْمَسْجِدِ إلَی مَکَانِ آخَرَ إنْ تَرَکُوهُ بِحَیْثُ لَا یُصَلَّی فِیهِ، وَلَهُمْ بَیْعُ مَسْجِدٍ عَتِیقٍ لَمْ یُعْرَفْ بَانِیهِ وَصَرْفُ ثَمَنِهِ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ.
محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں، یہی بات فتاویٰ خانیہ میں ہے اور جامع الفتاوی میں بھی ہے کہ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 357، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر
اس عبارت سے یہ اصول معلوم ہو گیا کہ بوقتِ ضرورت مسجد انتظامیہ، مسجد میں کوئی ضروری تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر سکتی ہے اور اس کی اضافی اشیاء جو قابل استعمال نہ ہوں، ان کو بیچ کر مسجد کے دیگر امور میں خرچ بھی کر سکتی ہے۔
اسی قاعدے سے استدلال کرتے ہوئے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ انتظامیہ کے باہمی مشورے سے مسجد کے اکاؤنٹ میں پڑی اضافی رقم جنازہ گاہ کی تعمیر میں بطور ادھار خرچ کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ اس سے مسجد کے معاملات میں کسی قسم کا خلل نہ آئے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔