وباء کے خاتمے کیلئے اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:5747
السلام علیکم مفتی صاحب! کورونا وائرس کی تباہ کاری پوری دنیا میں جاری ہے اور اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ لوگ اس کا علاج معالجہ بھی کروا رہے ہیں اور ساتھ ایک طبقے کی طرف سے اجتماعی طور پر اپنے اپنے گھروں میں اذانیں دینے کا بھی مشورہ دیا جا رہا ہے۔ اب ایسے اعلانات سامنے آنے لگے ہیں کہ رات کو دس بجے سب لوگ مل کر اذان دیں۔ براہ کرم واضح فرمائیں کہ کسی وبائی مرض کو دفع کرنے کے لیے اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • سائل: محمد طاہر ظفرمقام: بھمبر، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 05 جون 2020ء

زمرہ: اذان

جواب:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز کسوف پڑھانے کے بعد خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ:

‏إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لاَ يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا‏

’سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔‘

بخاری، الصحیح، كتاب الكسوف، رقم الحدیث: 1044

درج بالا حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی غیر طبیعی واقعہ یا کوئی حادثہ پیش آنے پر، مصیبت کا شکار ہونے پر یا کوئی وباء پھیلنے پر اہلِ اسلام کو چار کاموں کا انفرادی یا اجتماعی طور پر اہتمام کرنا چاہیے، یہ چار امور ہیں:

  1. ذکر الٰہی
  2. دعا
  3. نماز
  4. صدقہ

جناب امیرُ المومنین و المسلمین سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا:

یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ.

اے ابو طالب کے بیٹے! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان

اذان کی مشروعیت اصلاً نماز کے اعلان کے مقصد سے کی گئی ہے، البتہ بعض دیگر کاموں کے لیے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً نومولود کے کان میں اذان دینے کا حکم یا آگ زنی کے وقت اذان دینے کی ترغیب وغیرہ۔ فقہائے شوافع کے ہاں مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے بطور علاج اذان دینے کی گنجائش ہے۔ بعض علماء وباء خاتمے کے لیے اذان دینے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور مفتی امجد علی رحمۃ اللّٰہ علیہما لکھتے ہیں کہ:

”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“

  1. فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور
  2. بہارِ شریعت، جلد اول، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی

اس سے واضح ہوتا ہے کہ مصیبت و پریشانی اور وباء و بلاء کے وقت اذان دینا مستحب عمل ہے، اس کے سنت یا لازم و ضروری امر ہونے کا اعتقاد نہیں ہونا چاہیے۔کرونا وائرس کی موجودہ وباء کے خاتمے کے لیے بھی اگر کوئی مسلمان علاج معالجے اور دعا کے ساتھ اذان کی تدبیر بھی اختیار کرتا ہے تو یہ مستحب عمل ہے، ممکن ہے اللّٰہ تعالیٰ اپنے اس ذکر کی برکت سے موجودہ آفت کو ٹال دے اور خوف و ہراس کا خاتمہ ہو جائے۔ البتہ دین اسلام کی تعلیمات سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ وباء کے خاتمے کے لیے محض اذان پہ انحصار کیا جائے، چنانچہ وباء کی صورت میں احتیاطی تدابیر اور علاج معالجہ کیلئے متداول علم الطب کے اصولوں کی پاسداری بھی عین شرعی تقاضا ہے۔

(نوٹ: اگرچہ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم والی روایت کی سند میں ضعف ہے تاہم جو علماء اس سے وباء کے خاتمے کے لیے اذان دینے کا استدلال کرتے ہیں وہ ایسے وقت اذان دینے کو مستحب گردانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث کفایت کرتی ہے۔)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔