کیا کسی صحابی سے غلطی سر زد ہو تو اسے گناہ نہیں ہوتا؟


سوال نمبر:5641
السلام علیکم مفتی صاحب! چند امور میں رہنمائی درکار ہے کہ (1) آیت ’رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ‘ کا اطلاق تمام صحابہ پر ہوتا ہے یا صرف السابقون الاولون پر ہوتا ہے؟ (2) کیا اس آیت کے اطلاق کے بعد تمام صحابہ جنتی ہیں؟ اگر بحیثیت انسان کسی صحابی سے غلطی سر زد ہوئی تو کیا اس کا کوئی گناہ نہیں؟ اور اگر گناہ ہے تو عام مسلمان کے لیے بھی تو یہی قانون ہے کہ اپنے گناہوں کی سزا کے بعد جنت بھیج دیا جائے گا۔ پھر صحابی اور عام مسلمان میں فرق کیا ہوا؟ (3) حضرت معاویہ کے بارے میں ایک مخصوص طبقہ عوام الناس میں غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو السابقون الاولون کے مقابلے میں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ مقام ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے جس سے حضرت علی اور امام حسین کے کردار  کو مشکوک کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسے میں سلطنت شام کی طرف سے غلط فیصلوں کو ادب کے دائرہ میں رہ کر بیان کیا جا سکتا ہے؟

  • سائل: عبدالقادر قادریمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 31 اکتوبر 2019ء

زمرہ: خلفائے راشدین و صحابہ کرام

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ ’رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ‘ کا اطلاق تمام صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور قیامت تک آنے والے اُن مومنین پر ہوتا ہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے مطابق زندگی گزاری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ اللّهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO

اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا، ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے۔

الْمَآئِدَة، 5: 119

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اُس سے راضی ہوگئے۔ یہ رضا کسی مومنین کے کسی خاص طبقے کے لیے مختص نہیں کی گئی۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور ان کے مددگار انصار جو ایمان لائے اور درجہ احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO

اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔

التَّوْبَة، 9: 100

سورہ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی نہ کرنے والوں کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ارشاد ہے:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَO

آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔

الْمُجَادَلَة، 58: 22

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن مومنین کے لیے جو اپنے رب کی پکڑ سے خائف رہتے ہیں‘ ان کے بارے میں فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِO جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُO

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔ ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔

الْبَـيِّـنَة، 98: 7-8

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ ’رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ‘ کا اطلاق ہر اس مومن پر ہوتا ہے جو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے مطابق گزارتا ہے۔

2۔ عقیدہ اہلِ سنت کے مطابق صرف انبیاء علیھم السلام ہی معصوم عن الخطاء ہیں، ان کے علاوہ ہر انسان سے خطاء سرزد ہونا ممکن ہے۔ جس طرح بتقاضائے بشریت بعض صحابہ کرام سے خطاء سرزد ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدود جاری فرمائیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کسی صحابی کی لغزش پر اسے سزا دینے کا حق رکھتا ہے۔ جن صحابہ کرام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنتی ہونے کی بشارت دی ان کے جنتی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ صحابی اور عام مسلمان میں فضائل کی ضمن میں بہت فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کی جو شان بیان کی ہے‘ عام مسلمان ان کے درجہ کو چھو بھی نہیں سکتا۔ اس لیے صحابہ کرام کے معاملات کا فیصلہ اللہ و رسول پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ان معاملات میں کوئی فیصلہ طے کرنا ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے۔

3۔ مذکورہ جوابات کی مزید وضاحت اور تیسرے سوال کے بہتر جواب کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’حقیقتِ مشاجراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین‘ کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری