کیا اہلِ کتاب لڑکی کا والد نکاح‌ِ شرعی ولی بن سکتا ہے؟


سوال نمبر:5408
السلام علیکم مفتی صاحب! اگر کوئی اہل کتاب لڑکی کسی مسلمان سے شادی کرے تو کیا اس کا والد ولی بن سکتا ہے؟ اس کے نکاح نامے پر اس کا غیرمسلم نام لکھا جائے گا؟

  • سائل: محسن رضا نقویمقام: میرپور
  • تاریخ اشاعت: 27 جون 2019ء

زمرہ: اہل کتاب اور کافرہ سے نکاح

جواب:

اہلِ کتاب لڑکی کا والد بھی اگر اہلِ کتاب ہے تو وہ اس کا ولی بن سکتا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

لاَ يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى.

دو ملتوں والے کسی بھی شئے میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو نگے۔

  1. أبو داود، السنن، 3: 125، رقم: 2911، بيروت: دار الفكر
  2. ابن ماجه، السنن، 2: 912، رقم: 2731، بيروت: دار الفكر

اور فتاوی ہندیہ المعروف فتاوی عالمگیری میں ہے:

وَلَا وِلَايَةَ لِصَغِيرٍ وَلَا مَجْنُونٍ وَلَا لِكَافِرٍ عَلَى مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ، وَلَا لِمُسْلِمٍ عَلَى كَافِرٍ وَكَافِرَةٍ، ... وَلِلْكَافِرِ وِلَايَةٌ عَلَى مِثْلِهِ.

مسلمان مرد یا عورت پر نابالغ ومجنون اور کافر کی ولایت نہیں ہے۔ اور اسی طرح کافر مرد یا عورت پر مسلمان کی والایت نہیں ہے۔۔۔ اور کافر کو اپنی طرح کے کافر پر ولایت حاصل ہوتی ہے۔

الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 284، بيروت: دار الفكر

  احناف کے ہاں عاقل و بالغ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے جبکہ نابالغ لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔ جب لڑکی اہلِ کتاب ہوگی تو اس کا ولی بھی اہلِ کتاب ہی ہوگا جیسا کہ مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کا جو بھی نام ہوگا وہی نکاح نامے پر لکھا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری