امانت میں‌ نقصان کا بوجھ امین پر ہوگا یا مالک پر؟


سوال نمبر:5254
محترم مفتی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! مندرجہ ذیل مسئلہ میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔ آفس کے کچھ لوگ تنخواہ ملنے پر باقی لوگوں سے چیک اکٹھے کر کے بینک سے کیش کروا کر لاتے ہیں. یہ لوگ کچھ مخصوص نہیں ہیں، کبھی کوئی چلا جاتا ہے تو کبھی کوئی.  کچھ رقم (ایک لاکھ روپے) ان سے گم ہو گئی تو اس کو کس کے ذمے ڈالنا ہوگا؟ یعنی کیا یہ نقصان صرف ان لوگوں کا ہوا جن  کے چیک کیش ہوئے؟ یا جو لوگ یہ چیک کیش کروا کر لا رہے تھے ان کو بھی اس نقصان میں شامل کیا جائے گا؟ مختلف لوگوں کے چیک مختلف مالیت کے تھے، تو اب نقصان کی رقم ان سے کس تناسب سے لی جائے گی؟  کیش لانے والے لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ کہ گم ہونیوالی رقم بینک میں ایک مخصوص وقت میں گری ہے جب وہ لوگ وہیں سے گھر جانیوالے 3 لوگوں کو انکی رقم دے رہے تھے. اس کے بعد باقی رہ جانیوالے لوگوں نے مزید ایک باقی ماندہ چیک کیش کروایا، پیسے اسی بیگ میں ڈالے، آفس پہنچ کر جب گنے تو کم تھے. اب یہ بھی فرمایئے کہ:  کیاگم شدہ رقم کا نقصان سب شرکاء (جن کے چیک کیش ہوئے) کا تصور ہوگا؟ یا جس بھائی کا چیک آخر میں کیش ہوا اس کا نقصان تصور نہیں ہوگا؟ مزید یہ کہ جن لوگوں کے چیک تھے وہ چیک کیش کروا کر لانے والوں پر شک بھی کر رہے ہیں، اسکے بارے میں بھی فرمایئے کہ معاملہ کیسے حل ہو، اگر چیک کیش کروا کر لانے والے کوئی واضح ثبوت یا دلیل اپنی صفائی میں نہ پیش کر سکیں تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ جزاک اللہ خیر. فقط والسلام 

  • سائل: عبداللہمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 18 اپریل 2019ء

زمرہ: ودیعت (امانت)

جواب:

اگر دفتر سے جانے میں تمام افراد کو مشکل درپیش تھی تو آپ لوگوں کو باہمی رضامندی سے چیک کیش کروانے کے لیے جانے والوں کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ کر لینا چاہیے تھا تاکہ کسی بھی نقصان کی صورت میں پہلے سے طے شدہ قاعدہ کے مطابق نقصان کو برداشت کیا جاسکتا۔ یہی حکمِ باری تعالیٰ ہے کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ.

اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے۔

البقرة، 2: 282

مذکورہ نقصان درپیش آنے سے قبل آپ نے کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں کر رکھا تھا اس لیے ان لوگوں پر شک کرنے کی بجائے اس نقصان کو ان تمام لوگوں پر تقسیم کیا جائے جن کے چیک کیش ہوچکے تھے۔ نقصان برداشت کرنے کی نسبت وہی رکھی جائے جو چیک کی مالیت کی تھی یعنی نقصان کو رقم کے اعتبار سے تقسیم کر دیں۔ اور آئندہ کے لیے قواعد و ضوابط وضع کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری