جواب:
مسجد کے لیے وقف اشیاء، زمین، مکان، دکان، جانور یا جمع شدہ روپیہ کو مسجد کا مستقل ذریعہ آمدن بنانے کے لیے مصرف میں لانا شرعاً جائز ہے۔ اس سے مقاصدِ مسجد کی تکمیل اور ضروریاتِ مسجد پوری کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی کو ان امور سے متعلق ضروری فیصلہ جات کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حَشِيشُ الْمَسْجِدِ وَحُصْرُهُ مَعَ الِاسْتِغْنَاءِ عَنْهُمَا وَ كَذَا الرِّبَاطُ وَالْبِئْرُ إذَا لَمْ يُنْتَفَعْ بِهِمَا فَيُصْرَفُ وَقْفُ الْمَسْجِدِ وَالرِّبَاطِ وَالْبِئْرِ وَالْحَوْضِ إلَى أَقْرَبِ مَسْجِدٍ أَوْ رِبَاطٍ أَوْ بِئْرٍ أَوْ حَوْضٍ.
مسجد کی گھاس اور چٹائی‘ جب مسجد کو ان کی ضرورت نہ رہے، اس طرح مسافرخانہ اور کنواں‘ جب ان سے نفع نہ اٹھایا جا رہا ہو تو ان کا وقف قریبی مسجد، مسافرخانے، کنویں اور حوض پر صرف کیا جائے گا۔
حصکفی، الدرالمختار، 4: 359، بیروت، دارالفکر
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالات کے پیشِ نظر وقف کے منتظمین ان امور میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اگر مسجد کا چندہ روزمرہ کی ضروریات سے زائد ہے تو کسی باعتماد سرمایہ کار کے ساتھ اس کی سرمایہ کاری کر کے مسجد کی آمدنی کا مستقل ذریعے بنایا جاسکتا ہے اور بوقتِ ضرورت تمام سرمایہ نکال کر مسجد کی تعمیر و مرمت پر خرچ بھی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔