کیا طلاق کو مشروط کرنے کے بعد شوہر شرط واپس لے سکتا ہے؟


سوال نمبر:4931

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ سے کہا کہ اگر تم فلاں جگہ گئی تو تجھے تین طلاق ہے کچھ دن کے بعد ہندہ اس جگہ گئی لوگوں کو معلوم ہوا تو زید سے پوچھا کہ تمہاری بیوی اس جگہ چلی گئی جہاں تونے جانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اس جگہ گئی تو تجھے تین طلاق ہے لہٰذا تیری بیوی تیرے نکاح سے نکل گئی۔ اس پر زید نے کہا کہ میں نے قسم دی تھی لیکن پھر میں نے ہی اجازت دی ہے لہٰذا میری اجازت سے گئی ہے تو طلاق نہیں ہوگی۔ اب دریافت طلب یہ ہیکہ ہندہ پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی تو کتنی اور کون سی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

  • سائل: محمد بلال برکاتی نیپالیمقام: سنسری، نیپال
  • تاریخ اشاعت: 12 جولائی 2018ء

زمرہ: تعلیق طلاق

جواب:

اس معاملے میں طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کا انحصار شوہر کی طرف سے لگائی گئی شرط کے الفاظ پر ہے۔ اگر شوہر نے بغیر اجازت ممنوعہ جگہ جانے سے طلاق کو مشروط کیا تھا اور بیوی اس سے اجازت لے کر گئی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر مطلق یہ کہا تھا کہ ’فلاں جگہ گئی تو تجھے تین طلاق‘ تو بیوی کے وہاں جانے سے طلاق واقع ہو گئی ہے‘ خواہ شوہر کی اجازت سے ہی جائے۔

اس لیے اس معاملے میں طلاق کے وقوع یا عدمِ وقوع کا فیصلہ اُس شرط کے الفاظ پر منحصر ہے جن کے ساتھ شوہر نے طلاق کو مشروط کیا تھا۔ جیسا کہ اپنے سوال میں آپ نے لکھا ہے کہ زید نے ہندہ سے کہا ’تم فلاں جگہ گئی تو تجھے تین طلاق‘ اس میں زید نے اجازت کا ذکر نہیں کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرط مطلق جانے پر لگائی گئی ہے۔ اس صورت میں ہندہ کے اس جگہ جانے سے تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں‘ خواہ وہ شوہر کی اجازت سے گئی تھی یا بغیر اجازت کے گئی تھی۔ شوہر جب ایک بار طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کر دے تو شرط واپس نہیں لے سکتا۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے:

عَنْ الشَّعْبِیِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَأَتهِ: کُلُّ امْرَأَةٍ أَتَزَوَّجُهَا عَلَیْک فَهَیَ طَالِقٌ، قَالَ: فَکُلُّ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُهَا عَلَیْهَا، فَهِیَ طَالِقٌ.

حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تیرے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کروں اُسے (نئی بیوی کو) طلاق ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس بیوی کے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کرے گا اُسے طلاق ہو جائے گی۔

ابن أبي شیبة، المصنف، 4: 65، رقم: 17838، الریاض: مکتبة الرشد

یعنی اُس نے اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور عورت سے نکاح کرنے کی صورت میں طلاق کی شرط رکھ دی ہے تو جب تک وہ بیوی نکاح میں موجود ہے تو وہ جس عورت سے بھی نکاح کرے گا اُسے طلاق واقع ہوتی جائے گی۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:

وَإِذَا أَضَافَهُ إِلَی شَرْطٍ وَقَعَ عَقِیْبَ الشَّرْطِ.

جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا تو جب شرط پائی گئی، طلاق ہو جائے گی۔

  1. مرغیناني، الهدایة، 1: 251، المکتبة الاِسلامیة
  2. الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 1: 420، دار الفکر

اس لیے کوئی بھی شخص جو ہوش و حواس میں بلاجبر و اکراہ طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کرے تو شرط پوری ہوتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری