مسجد میں سونے اور بات چیت کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4917
مسجد کا احترام کیا ہے؟ جیسا کہ رمضان میں ہم اس میں بیٹھ کے باتیں بھی کرتے ہیں اور سو بھی جاتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے؟ حضور ہمارا درود و سلام کب سنتے ہیں؟

  • سائل: ذوہیب حسنمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 02 جولائی 2018ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

آپ کے دونوں سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ مساجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جگہ کی تعیین ہے۔ مساجد باجماعت نمازِ پنجگانہ، نمازِ جمعہ وعیدین اور اعتکاف کی عبادت کے لیے قائم کی جاتی ہیں، جبکہ ان میں نفل نمازوں کی ادائیگی، قرآن مجید کی تلاوت، تکبیر و تسبیح، دین کی تعلیم و تعلم اور تبلیغ و ارشاد سمیت اعمالِ خیر انجام پاتے ہیں۔ مساجد چونکہ اجتماعی عبادت گاہیں اس لیے اِن میں ایسی گفتگو جو کسی کی عبادت میں خلل پیدا کرے یا کسی کے خشوع وخضوع کو مجروح کرے قطعاً ممنوع ہے۔ حضرت واثلۃ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جَنِّبُوا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ، وَمَجَانِینَکُمْ، وَشِرَائَکُمْ، وَبَیْعَکُمْ، وَخُصُومَاتِکُمْ، وَرَفْعَ أَصْوَاتِکُمْ، وَإِقَامَةَ حُدُودِکُمْ، وَسَلَّ سُیُوفِکُمْ، وَاتَّخِذُوا عَلَی أَبْوَابِهَا الْمَطَاهِرَ، وَجَمِّرُوهَا فِي الْجُمَعِ.

اپنی مسجدوں کو بچوں، دیوانوں (پاگلوں)، خرید و فروخت کرنے والوں اور اپنے جھگڑوں (اختلافی مسائل)، زور زور سے بولنے، حدود قائم کرنے اور تلواریں کھینچنے سے محفوظ رکھو۔ مساجد کے دروازاوں پر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو چھڑکا کرو۔

ابن ماجه، السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکره فی المساجد، 1: 247، رقم: 750، بیروت: دار الفکر

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں مساجد کے اندر جن امور کی ممانعت کا ذکر ہے، اُن سے مسجد کا تقدس خراب ہونے اور مقاصد مسجد فوت ہونے کا خدشہ ہے۔ مثلاً پاگل مسجد کے تقدس کا خیال نہیں رکھے گا، اسی طرح چھوٹے بچے جو چیختے چلاتے ہوں اور اپنے پیشاب پر کنٹرول نہ رکھتے ہوں تو اُن کو مسجد میں لانا جائز نہ ہو گا کیونکہ وہ بھی پاگلوں کی طرح مسجد کے تقدس کا خیال نہیں رکھ پائیں گے، لڑائی جھگڑے سے بھی مسجد کی بے حرمتی ہو گی اور مسجد میں خرید وفروخت کرنے اور زور زور سے بولنے سے مقاصد مسجد فوت ہو جائیں گے۔ اس لیے اعتکاف و غیر اعتکاف میں مساجد کے اندر صرف ضروری بات چیت کرنا ہی جائز ہے۔ معتکف، مسافر یا کسی دینی امر میں مشغول شخص کے سوا کسی کے لیے مسجد میں سونا جائز نہیں ہے۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب بھی درود و سلام بھیجا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِیدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَیْثُ کُنْتُمْ.

اپنے گھروں کو مردہ خانے نہ بناؤ اورنہ ہی میری قبر کو عید گاہ بناؤ (کہ عید گاہ سال میں صرف دو مرتبہ جایا جاتا ہے، کثرت سے میری قبر کی زیارت کرو) اور مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 367، رقم: 87۹0 ، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبي داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارة القبور2: 527، رقم: 2042، دار الفکر

اور حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فِیهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِیهِ قُبِضَ وَفِیهِ النَّفْخَۃُ وَفِیهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِیهِ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا یَا رَسُولَ اﷲِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ یَقُولُونَ بَلِیتَ فَقَالَ إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ.

تمہارے تمام دنوں میں جمعہ کا روز سب سے افضل ہے کہ اس میں حضرت آدم کو پیدا فرمایا گیا اور اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اس میں سب بے ہوش ہوں گے۔ اس لیے اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اﷲ اس وقت بھلا ہمارا درود پڑھنا کس طرح پیش ہو گا جبکہ آپ کا جسد مبارک خاک میں مل چکا ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی قسم کا نقصان پہنچانا) زمین پر حرام فرما دیا ہے۔

  1. أبي داود، السنن، 1:275 ، رقم: 1047
  2. نسائي، السنن، 2:88 ، رقم:1531 ، حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة

ایک اور حدیث مبارکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ أَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّی أَرُدَّ عَلَیْهِ السَّلَامَ.

کوئی ایسا نہیں جو مجھے سلام بھیجتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے میری روح لوٹا دی ہوئی ہے (اور میری توجہ اس کی طرف مبذول فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 527، رقم: 10827
  2. أبي داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارة القبور، 2: 218، رقم: 2041

اس لیے جب بھی درود و سلام پڑھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے اور آپ جواب بھی دیتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی