بھیک مانگنے والوں کو صدقہ دینے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4911
السلام علیکم! مفتی صاحب لوگ سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، کیا ہمارا فرض ہے کہ سب کو صدقہ دیں؟ اگر کوئی نوجوان مانگ رہا ہو تو اسے دیا جائے یا نہیں؟ کیسے معلوم کریں گے کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں؟

  • سائل: فرقان مشتاقمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 20 جولائی 2018ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

بھیک مانگنا اور بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا اسلام میں قطعاً ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیک مانگنے کی نہ صرف ممانعت کی ہے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ اس بت عرض گزار کیا: کیوں نہیں ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ ہم اوڑھتے اور کچھ حصہ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں چیزیں لے آؤ۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ دونوں چیزیں لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا: ان دونوں کو کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے کون زیادہ دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے۔ وہ دونوں انصاری کو دے کر فرمایا کہ ان میں سے ایک کا اناج خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی لاکر میرے پاس لے آؤ۔ جب وہ لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالا، پھر اس سے فرمایا کہ جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ روز میں تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی گیا، لکڑیاں کاٹتا اور بیچتا رہا پھر جب وہ حاضرِ بارگاہ ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ بعض کا کپڑا اور بعض کا اناج خرید لیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ روزِ قیامت تمہارے چہرے پر سوال کرنے کا داغ ہو کیونکہ تین آدمیوں کے سوا دست سوال پھیلانا درست نہیں ہے:

لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ.

ایسا شخص جسے فقروفاقہ خاک نشین کر دے، جو شدید قرض میں گھر گیا ہو اور وہ جو مجبور کردینے والے خون بہا میں پھنس گیا ہو۔

أبي داود، السنن، باب کتاب الزکاة، ما تجوز فیه المسألة، 2: 120، رقم: 1641، بیروت: دار الفکر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر بھیک مانگنے کی ممانعت ان الفاظ میں کی ہے:

اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے)سے بہتر ہے اور (خرچ کرنے کی) ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمّے ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے بعد (یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد) ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے اللہ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ اسے بےنیاز کر دیتا ہے۔

بخاری، الصحیح، کتاب الزكاة، باب لا صدقة الا عن ظهر غنى، رقم الحدیث: 1361، 2: 518

اسلام چاہتا ہے کہ صاحبِ حیثیت افراد اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں، حقدار کی بغیر مانگے مدد کریں تاکہ ضرورت مندوں کو بازاروں، چوکوں، چوراہوں میں مانگنا نہ پڑے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے غربت و افلاس کے سائیوں نے نہ صرف ضرورت مندوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ پیشہ وروں نے بھی بھکاریوں کا روپ دھار لیا ہے۔ بدقسمتی آج تک اس سلسلے میں کوئی قانون سازی بھی نہیں کی جا سکی۔ بھیک کی لعنت کو انفرادی کوششوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب تک اس سلسلے میں کوئی اجتماعی کوشش نہیں ہوتی تب تک استطاعت کے مطابق جس کو جتنا چاہیں صدقہ دے دیں۔ کیونکہ چوک، چوراہے پر بھیک مانگنے والوں کی فرداً فرداً تحقیق نہیں کی جاسکتی کہ کون حقدار ہے اور کون نہیں۔ سب کو دینا لازم نہیں، جسے حقدار سمجھیں اسے استطاعت کے مطابق صدقہ دے دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری