جواب:
اسلام کے صدرِ اوّل میں دورِ حاضر کی طرح الگ سے جنازگاہ کے لیے زمین وقف کر کے عمارت تعمیر کرنے کا تصور نہیں تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے نمازِ جنازہ مسجد نبوی میں، عیدگاہ میں یا کھلے میدانوں میں ادا کی ہیں۔ تاہم آج کے دور میں جنازگاہ وقف کی ایک صورت ہے۔ فقہاء کرام کے نزدیک ایک وقف کا ملبہ اُسی طرح کے دوسرے وقف پر خرچ کرنا جائز ہے۔ علامہ محمد بن علی المعروف علاؤ الدین حصکفی فرماتے ہیں:
وَصَرَفَ الْحَاکِمُ أَوْ الْمُتَوَلِّي نَقْضَهُ أَوْ ثَمَنَهُ إنْ تَعَذَّرَ إعَادَةُ عَیْنِهِ إلَی عِمَارَتِهِ إنْ احْتَاجَ وَإِلَّا حَفِظَهُ لَهُ لِیَحْتَاجَ إلَّا إذَا خَافَ ضَیَاعَهُ فَیَبِیعَهُ وَیُمْسِکَ ثَمَنَهُ لِیَحْتَاجَ.
وقف کے ملبہ کو بعینہ وقف میں استعمال کرنا ممکن نہ ہو تو حاکم یا متولی اس ملبہ کو وقف کی تعمیر میں استعمال کرے ورنہ اسے محفوظ رکھے اور اگر اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس ملبہ کو بیچ دے اور حاصل ہونے والی قیمت محفوظ رکھے تاکہ وقف کو ضرورت پڑنے پر وہ وقف میں استعمال کی جا سکے۔
حصکفي، الدر المختار، 4: 376-377، بیروت: دار الفکر
بصورت مسئولہ آپ پہلی جناز گاہ کا ملبہ یا اُس کو بیچ کر قیمت دوسری جناز گاہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔