عبد المصطفیٰ نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:4812
السلام علیکم! عبد المصطفیٰ نام رکھنا کیسا ہے؟ میں نے صحیح مسلم میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ براہ کرام وضاحت فرمائیں۔

  • سائل: شہریار بلوچمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 23 اپریل 2018ء

زمرہ: اسلامی نام

جواب:

عبد کا معنیٰ صرف بندہ نہیں ہے، بلکہ غلام، تابع فرمان، خدمت گزار کو بھی عربی میں عبد کہا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی غلام کو اس کے مالک کا عبد ہی کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً عَبْدًا مَّمْلُوكًا لاَّ يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ.

اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (کہ) ایک غلام (جو کسی کی) ملکیت میں ہے (خود) کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔

النَّحْل، 16: 75

اور سورہ النور میں بھی غلاموں اور لونڈیوں کو اپنے مالکوں کے عباد (عبد کی جمع) اور اِماء (بندیاں) کہا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ.

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)۔

النُّوْر، 24: 32

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں عبد کا لفظ غلام، نوکر، خدمت گزار کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو تعلیم فرمائی ہے کہ وہ اپنے خدمت گزاروں اور ملازمین کو عبد نہ کہیں، کیونکہ اس میں ایک طرح کا کبر چھپا ہے‘ مبادا کسی مالک کے شعور یا لاشعور میں اپنے خدمت گزاروں کی کمتری کا تصور آ جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا یَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ عَبْدِي وَأَمَتِي. کُلُّکُمْ عَبِیدُ اﷲِ‘ وَکُلُّ نِسَائِکُمْ إِمَاءُ اﷲِ وَلَکِنْ لِیَقُلْ غُلَامِي وَجَارِیَتِي وَفَتَايَ وَفَتَاتِی.

تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا لونڈی کو ’میرا بندہ‘ یا ’میری بندی‘ کہہ کر نہ بلائے۔ تم سب اللہ تعالیٰ کے حقیر بندے ہو اور تمہاری تمام عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں۔ اس طرح کہو: میرا غلام، میری کنیز، میرا ملازم، میری ملازمہ۔

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الألفاظ من الأدب وغیرها، باب حکم إطلاق لفظة العبد والأمة والمولی والسید، 4: 1764، رقم: 2249، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 463، رقم: 996۵، مصر: مؤسسة قرطبة

یہ منع ان لوگوں کو کیا جا رہا جنہوں نے اپنے آباؤ اجدا کو بتوں کی بندگی کرتے دیکھا، جن کے بچپن اور جوانی شرک کرتے اور دیکھتے گزرے تھے، اور یہ مناہی اس لیے کی جا رہی ہے کہ شرک و تکبر کا ہر گمان ان کے شعور و لاشعور سے پارہ پارہ ہو جائے۔ مگر جب حالات بدل گئے، توحیدِ خالص لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ اب مجھے کوئی خوف نہیں ہے کہ میری امت دوبارہ شرک میں کبھی مبتلا ہو سکتی ہے۔ اسی لیے امیر المومنین سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ اِنِّی٘ قَد٘ عَلِم٘تُ اَنَّکُم٘ کُن٘تُم٘ تُو٘نِسُو٘نَ مِن٘ شِدَّةِ وَّ غِل٘ظَةِ وَّ ذٰالِکَ اَنِّی٘ کُن٘تُ مَعَ رَسُو٘لِ اللهِ وَکُن٘تُ عَب٘دُهٗ وَ خَادِمُهٗ.

اے لوگو! میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت رکھتے ہو اور یہ اس لیے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عبد (غلام) اور خادم ہوں۔

کنزالعمال، جلد: 3، صفحه: 147

اس لیے عبد بمعنیٰ غلام کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرنا جائز ہے۔ عبدالمصطفیٰ کا معنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بندہ نہیں ہے، اس کا معنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہے۔ جس طرح ’غلام محمد‘ ’غلام نبی‘ ’غلام علی‘ غلام حسین‘ نام رکھنا جائز ہے، اسی معنیٰ میں ’عبد المصطفیٰ‘ نام رکھنا بھی جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری