کیا پراویڈنٹ فنڈ کے ذریعے ملنے والا منافع جائز ہے؟


سوال نمبر:4742
السلام علیکم! کیا پراویڈنٹ فنڈ سے ملنے والا منافع جائز ہے؟

  • سائل: عروسہ نعیممقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 02 مارچ 2018ء

زمرہ: جی پی فنڈ/پراویڈنٹ فنڈ

جواب:

سرکاری، نیم سرکای اور پرائیویٹ ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کر کے کچھ رقم اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ ملازمین کی خدمت کا معاوضہ ہوتا ہے جو ان کی ملکیت میں آنے سے پہلے ادارہ بطور قرض رکھ لیتا ہے۔ اس قرض کے بعد ملازمین کی حیثیت قرض خواہ (قرض دینے والا) اور ادارے کی حیثیت مقروض کی ہو جاتی ہے۔ ملازمین یہ قرض دیتے وقت کوئی شرط نہیں لگاتے کہ اتنی مدت کے بعد ہمیں اتنا اضافہ کر کے واپس دیا جائے‘ بلکہ ادارے اپنی مرضی سے تَبَرُّعاً (انعام و عطیہ) اصل قرض سے زائد ادا کرتے ہیں جو یک آفر کرتا ہے کہ اگر آپ ہمیں قرض دیں تو اتنے عرصے کے بعد ہم آپ کو اتنا منافع دیں گے۔ اس لیے پراویڈنٹ فنڈ سے ملنے والی اصل رقم اور زائد دونوں جائز ہیں۔

ہماری دانست میں پراویڈنٹ فنڈ کا معاملہ قرض کا ہے‘ قرض میں سود کی صورت تب پیش آتی ہے جب قرض خواہ اور مقروض کے درمیان ہونے والے معاہدے میں زیادتی کو مشروط کیا جائے۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاملہ میں جانبین کی طرف سے زیادتی کو مشروط نہیں کیا جاتا بلکہ ادارہ یکطرفہ طور پر زائد ادا کرتا ہے‘ جو مقروض کی طرف سے قرض خواہ کے لیے ہدیہ و عطیہ ہے جو شرعاً جائز اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:

الربا: الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔

اصل مال پر زیادتی کو سود کہتے ہیں‘ لیکن شریعت میں ہر زیادتی سود نہیں کہلاتی بلکہ سود وہ زیادتی ہے جو مشروط ہو۔ شرط کے بغیر اگر مقروض، قرض خواہ کو اپنی خوشی سے کچھ زائد مال دے تو وہ جائز ہے‘ سود نہیں۔

أصفهاني، المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔

زیادتی دو طرح کی ہے: حرام وہ زیادتی ہے جو قرض کے ساتھ وصول کی جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے۔ جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم سے زائد بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط طور پر دیدے۔

  1. الأزهري، تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروت
  2. ابن منظور، لسان العرب، 14: 304، دار صادر بیروت
  3. الزبیدي، تاج العروس، 38: 118، دار الہدایة

گویا قرض دیئے ہوئے اصل مال پر مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جانے والی زیادتی سود ہے۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاملہ میں ایسا نہیں ہوتا‘ اس لیے ہم پراویڈنٹ فنڈ کے جواز کے قائل ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی