کیا ایک سے زائد جماعت کروانے کیلئے دوبارہ اذان کہی جائے گی؟


سوال نمبر:4740
السلام علیکم مفتی صاحب! میں‌ جس ادارے میں کام کرتا ہوں اس کا دفتر ایک 8 منزلہ عمارت میں‌ ہے۔ ہر منزل پر نماز کے لیے الگ جگہ بنی ہوئی ہے، لیکن اذان ایک ہی منزل پر ہوتی ہے جس کی آواز پوری عمارت میں سنائی دیتی ہے۔ بسا اوقات ہر منزل والے اپنی مزل میں موجود جگہ پر ہی جماعت کرواتے ہیں کیونکہ جگہ اتنی نہیں‌ ہے کہ جس میں‌ ساری لوگ باجماعت نماز ادا کر سکیں۔ راہنمائی کر دیں‌ کہ کیا ایک اذان کافی ہے یا ہر منزل پر جماعت کروانے کے لیے الگ اذان کہی جائے؟

  • سائل: فرقان مشتاق اعوانمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 02 مارچ 2018ء

زمرہ: اذان

جواب:

 اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے اور یہ نماز کے لیے بلانے کا ایک احسن انداز ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًاط ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَo

اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنالیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے۔

المائدة، 5: 58

دوسرے مقام پر فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

الجمعة، 62: 9

دونوں آیات مبارکہ میں اذان کا مقصد اہل ایمان کو نماز کی طرف بلانا ہے۔ دورِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں طویل مشاورت کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ اذان تھا۔ حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

کَانَ الْمُسْلِمُونَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَةَ یَجْتَمِعُونَ فَیَتَحَیَّنُونَ الصَّلَاةَ لَیْسَ یُنَادَی لَهَا فَتَکَلَّمُوا یَوْمًا فِي ذٰلِکَ فَقَالَ بَعْضُهُمُ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَی وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ الْیَهُودِ فَقَالَ عُمَرُ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا یُنَادِي بِالصَّلَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ.

مسلمان جب مدینہ منورہ میں آئے تو نماز کے لیے اندازے سے جمع ہو جایا کرتے اور اس کے لیے اعلان نہیں ہوتا تھا۔ ایک روز انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی۔ بعض نے کہا کہ ہم نصاریٰ کی طرح ناقوس بجایا کریں اور بعض نے کہا یہودیوں کی طرح سینگھ بنا لو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ہم ایک آدمی کو مقرر نہ کر دیں جو نماز کا اعلان کیا کرے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! کھڑے ہو کر نماز کا اعلان کرو۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 219، رقم: 579، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، 1: 285، رقم: 377، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

اس لیے جب ایک دفعہ اذان ہو جائے جس کی آواز پوری عمارت میں سنائی دے تو دوسری مزلوں پر جماعت کروانے کے لیے دوبارہ اذان کہنے کی ضروت نہیں ایک اذان کافی ہے، البتہ ہر جماعت کے اقامت کہی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری