اللہ تعالیٰ کو ’آپ‘ کہا جائے یا ’تُو‘؟


سوال نمبر:4716
اللہ پاک کو ’تو‘ کہنا چاہیے یا ’آپ‘؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ’مولا‘ بولنا جائز ہے؟

  • سائل: آزاد خانمقام: حیدرآباد
  • تاریخ اشاعت: 21 فروری 2018ء

زمرہ: عقائد  |  توحید

جواب:

اسلام کا اساسی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔ اس کی ذات، صفات اور افعال میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ تمام تعریفوں کا سزاوار ہے اور اس کی ذات ارفع و اعلیٰ ہے۔ پوری کائنات میں اس کے اسماء و صفات میں کوئی اس کا ہم مثل ہے اور نہ شریک۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:

وَلِلّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا.

اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو۔

الْأَعْرَاف، 7: 180

منشائے الٰہی یہ ہے کہ اسے جس نام سے بھی پکارا جائے اس کے لیے صیغہ واحد استعمال کیا جائے۔ سورہ فاتحہ میں یہی انداز سکھایا گیا ہے:

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.

اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

الْفَاتِحَة، 1: 4

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کے اقوال ذکر کیے ہیں جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا ضیغہ استعمال کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے الفاظ ہیں:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ.

اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔

إِبْرَاهِيْم، 14: 35

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے رب سے خطاب ان الفاظ میں ہے:

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاO

اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔

الْفُرْقَان، 25: 30

یہ آیات اور ان کے علاوہ بےشمار آیات میں اللہ تعالیٰ کے لیے قرآنِ مجید میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

اردو زبان میں ہم کسی شخص کی عظمت کے اظہار کے لیے اسے مخاطب کرتے ہوئے جمع تعظیمی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں، جیسے: آپ فرماتے ہیں، مولانا آئے تھے وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ تمام عظمتوں اور بزرگیوں کا حقیقی حقدار ہے، کچھ لوگ اسی خیال سے اللہ تعالٰی کے لیے صیغہء جمع کا استعمال کرتے ہیں جو کہ اس کی وحدانیت کے منافی۔ انبیاء کرام، صحابہ، فقہاء اور اسلاف صالحین نے اللہ تعالیٰ کے لیے ہمیشہ صیغہ واحد ’تو‘ استعمال کیا ہے۔ جمع کے صیغہ اگرچہ تعظیم پائی جاتی ہے مگر اس سے شرک کی بو بھی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، آپ پیدا کرتے ہیں وغیرہ۔ ’تو‘ میں توحید کا اختصاص پایا جاتا ہے شرک کی مکمل نفی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے ’آپ‘ کی بجائے ’تو‘ کا لفظ ہی استعمال کرنا چاہیے۔

مولا کے لفظی معنیٰ ’مددگار‘ اور دوست کے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo

بےشک اللہ اُن کا مددگار ہے، جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔

التحريم، 66: 4

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.

’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713
  2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959

یہ اعلانِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ ہے، اسی لیے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ’مولا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خطاب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ’مولا‘ کہنا درست ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری